YHH

Please Join me on G+ wncjhang@gmail.com and Subscribe me on Youtube. allinone funandtech....... THANK YOU FOR VISITING MY BLOG AND MY CHANNEL

لالٹین اور ہم.....

لالٹین – خواجہ حسن نظامی ایک رات میں نے لالٹین سے پوچھا: کیوں بی! تم کو رات بھر جلنے سے کچھ تکلیف تو نہیں ہوتی؟ بولی: آپ کا خطاب کس سے ہے؟ بتی سے ، تیل سے ، ٹین کی ڈبیہ سے ، کانچ کی چمنی سے یا پیتل کے اس تار سے جس کو ہاتھ میں لے کر لالٹین کو لٹکائے پھرتے ہیں۔ میں تو بہت سے اجزاء کا مجموعہ ہوں۔ لالٹین کے اس جواب سے دل پر ایک چوٹ لگی ۔ یہ میری بھول تھی۔ اگر میں اپنے وجود کی لالٹین پر غور کرلیتا تو ٹین اور کانچ کے پنجرے سے یہ سوال نہ کرتا۔ میں حیران ہوگیا کہ اگر لالٹین کے کسی جزو کو لالٹین کہوں تو یہ درست نہ ہوگا اور اگر تمام اجزاء کو ملا کر لالٹین کہوں تب بھی موزوں نہ ٹھہرے گا، کیونکہ لالٹین کا دم روشنی سے ہے۔ روشنی نہ ہو تو اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ مگر دن کے وقت جب لالٹین روشن نہیں ہوتی ، اس وقت بھی اس کا نام لالٹین ہی رہتا ہے۔ تو پھر کس کو لالٹین کہوں۔ جب میری سمجھ میں کچھ نہ آیا ، تو مجبورا لالٹین ہی سے پوچھا: میں خاکی انسان نہیں جانتا کہ تیرے کس جزو کو مخاطب کروں اور کس کو لالٹین سمجھوں۔ یہ سن کر لالٹین کی روشنی لرزی ، ہلی، کپکپائی۔ گویا وہ میری ناآشنائی و نادانی پر بےاختیار کھلکھلا کر ہنسی اور کہا: “اے نورِ خدا کے چراغ ، آدم زاد ! سن، لالٹین اس روشنی کا نام ہء جو بتی کے سر پر رات بھر آرا چلایا کرتی ہے۔ لالٹین اس شعلے کو کہتے ہیں جس کی خوراک تیل ہے اور جو اپنے دشمن تاریکی سے تمام شب لڑتا بھڑتا رہتا ہے۔ دن کے وقت اگرچہ یہ روشنی موجود نہیں ہوتی لیکن کانچ اور ٹین کا پنجرہ رات بھر ، اس کی ہم نشینی کے سبب لالٹین کہلانے لگتا ہے ۔ تیرے اندر بھی ایک روشنی ہے۔ اگر تو اس کی قدر جانے اور اس کو پہچانے تو سب لوگ تجھ کو روشنی کہنے لگیں گے ، خاک کا پتلا کوئی نہیں کہے گا۔” دیکھو ،خدا کے ولیوں کو جو اپنے پروودگار کی نزدیکی و قربت کی خواہش میں تمام رات کھڑے کھڑے گزار دیتے تھے، تو دن کے وقت ان کو نورِ خدا سے علیحدہ نہیں سمجھا جاتا رہا ، یہاں تک کہ مرنے کے بعد بھی ان کی وہی شان رہتی ہے۔ تو پہلے چمنی صاف کر۔ یعنی لباسِ ظاہری کو گندگی اور نجاست سے آلودہ نہ ہونے دے۔ اس کے بعد ڈبیا میں صاف تیل بھر۔ یعنی حلال کی روزی کھا، اور پھر دوسرے کے گھر کے اندھیرے کے لئے اپنی ہستی کو جلا جلا کر مٹا دے۔ اس وقت تو بھی قندیلِ حقیقت اور فانوسِ ربانی بن جائے گا۔”۔۔ ✍ادبی تحریریں📚

Two minuts Court

۔   *دو منٹ کی عدالت*
عرب سالار قتیبہ بن مسلم نے اسلامی لشکر کشی کے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے سمرقند کو فتح کر لیا تھا،

اصول یہ تھا کہ حملہ کرنے سے پہلے تین دن کی مہلت دی جائے۔

اور یہ بے اصولی ہوئی بھی تو ایسے دور میں جب زمانہ بھی عمر بن عبدالعزیز کا چل رہا تھا۔

🍀 سمرقند کے پادری نے مسلمانوں کی اس غاصبانہ فتح پر قتیبۃ کے خلاف شکایت دمشق میں بیٹھے مسلمانوں کے حاکم کو ایک پیغامبر کے ذریعہ خط لکھ کر بھجوائی۔

پیغامبر نے دمشق پہنچ کر ایک عالیشان عمارت دیکھی جس میں لوگ رکوع و سجود کر رہے تھے۔

اُس نے لوگوں سے پوچھا :
کیا یہ حاکمِ شہر کی رہائش ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ تو مسجد ہے،
تو نماز نہیں پڑھتا کیا ؟
پیغامبر نے کہا نہیں، میں اھلِ سمرقند کے دین کا پیروکارہوں۔ لوگوں نے اُسے حاکم کے گھر کا راستہ دکھا دیا۔

🍀 پیغامبر لوگوں کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتے حاکم کے گھر جا پہنچا، کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص دیوار سے لگی سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی لپائی کر رہا ہے اور نیچے کھڑی ایک عورت گارا اُٹھا کر اُسے دے رہی ہے۔

پیغامبر جس راستے سے آیا تھا واپس اُسی راستے سے اُن لوگوں کے پاس جا پہنچا جنہوں نے اُسے راستہ بتایا تھا۔

اُس نے لوگوں سے کہا میں نے تم سے حاکم کے گھر کا پتہ پوچھا تھا نہ کہ اِس مفلوک الحال شخص کا جس کے گھر کی چھت بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔

لوگوں نے کہا،
ہم نے تجھے پتہ ٹھیک ہی بتایا تھا، وہی حاکم کا گھر ہے۔
پیغامبر نے بے دلی سے دوبارہ اُسی گھرپر جا کر دستک دی،

جو شخص کچھ دیر پہلے تک لپائی کر رہا تھا وہی اند ر سے نمودار ہوا۔

🍀 میں سمرقند کے پادری کی طرف سے بھیجا گیا پیغامبر ہوں کہہ کر اُس نے اپنا تعارف کرایا اور خط حاکم کو دیدیا۔

اُس شخص نے خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر ہی لکھا :
عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے سمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام؛ ایک قاضی کا تقرر کرو جو پادری کی شکایت سنے۔
مہر لگا کر خط واپس پیغامبر کو دیدیا۔

پیغامبر وہاں سے چل تو دیا مگر اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے،
کیا یہ وہ خط ہے جو مسلمانوں کے اُس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا ؟

سمرقند لوٹ کر پیغامبر نے خط پادری کو تھمایا، جسے پڑھ کر پادری کو بھی اپنی دنیا اندھیر ہوتی دکھائی دی،
خط تو اُسی کے نام لکھا ہوا تھا جس سے اُنہیں شکایت تھی،
اُنہیں یقین تھا کاغذ کا یہ ٹکڑا اُنہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔

🍀 مگر پھر بھی خط لیکر مجبورا اُس حاکمِ سمرقند کے پاس پہنچے جس کے فریب کا وہ پہلے ہی شکار ہو چکے تھے۔

حاکم نے خط پڑھتے ہی فورا ایک قاضی (جمیع نام کا ایک شخص) کا تعین کردیا جو سمرقندیوں کی شکایت سن سکے۔

موقع پر ہی عدالت لگ گئی،
ایک چوبدار نے قتیبہ کا نام بغیر کسی لقب و منصب کے پکارا، قتیبہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر قاضی کے رو برو اور پادری کے ساتھ ہو کر بیٹھ گیا۔

قاضی نے سمرقندی سے پوچھا، کیا دعویٰ ہے تمہارا ؟
پادری نے کہا : قتیبہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ تو اِس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا۔

🍀 قاضی نے قتیبہ کو دیکھ کر پوچھا، کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں ؟
قتیبہ نے کہا : قاضی صاحب، جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے،

سمرقند ایک عظیم ملک تھا،
اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے تھے،
بلکہ ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی۔

سمرقند کی زمینیں تو اور بھی سر سبز و شاداب اور زور آور تھیں، ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور سمرقند پر قبضہ کر لیا۔

🍀 قاضی نے قتیبہ  کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا :
قتیبہ میری بات کا جواب دو،
تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت، جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی ؟

قتیبہ نے کہا : نہیں قاضی صاحب، میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔

قاضی نے کہا : میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو، اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا۔

قتیبہ : اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو دی ہی عدل و انصاف کی وجہ سے ہے نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی سے۔

میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور انکے عہدہ داران بمع اپنے بیوی بچوں کے، اپنی ہر قسم کی املاک، گھر اور دکانیں چھوڑ کر سمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور سمر قند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے۔ اگر ادھر دوبارہ آنا بھی ہو تو بغیر کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے اور تین دن کی سوچ و بچار کی مہلت دیئے بغیر نہ آیا جائے۔

پادری جو کچھ دیکھ اور سن رہا تھا وہ ناقابل یقین بلکہ ایک مذاق اور تمثیل نظر آ رہا تھا۔

چند لمحوں کی یہ عدالت، نہ کوئی گواہ اور نہ ہی دلیلوں کی ضرورت۔ اور تو اور قاضی بھی اپنی عدالت کو برخاست کرکے قتیبہ کے ساتھ ہی اُٹھ کر جا رہا تھا۔

اور چند گھنٹوں کے بعد ہی سمرقندیوں نے اپنے پیچھے گرد و غبار کے بادل چھوڑتے لوگوں کے قافلے دیکھے جو شہر کو ویران کر کے جا رہے تھے۔

لوگ حیرت سے ایک دوسرے سے سبب پوچھ رہے تھے اور جاننے والے بتا رہے تھے کہ عدالت کے فیصلے کی تعمیل ہو رہی تھی۔

اور اُس دن جب سورج ڈوبا تو سمرقند کی ویران اور خالی گلیوں میں صرف آوارہ کتے گھوم رہے تھے اور سمرقندیوں کے گھروں سے آہ و پکار اور رونے دھونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، اُن کو ایسے لوگ چھوڑ کر جا رہے تھے جن کے اخلاق ، معاشرت، برتاؤ، معاملات اور پیار و محبت نے اُن کو اور اُن کے رہن سہن کو مہذب بنا دیا تھا۔

🍀 تاریخ گواہ ہے کہ سمرقندی یہ فراق چند گھنٹے بھی برداشت نہ کر پائے، اپنے پادری کی قیادت میں لا الٰہ الاّ اللہ محمّد الرّسول اللہ کا اقرار کرتے مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے روانہ ہوگئے اور اُن کو واپس لے آئے۔

اور یہ سب کیوں نہ ہوتا، کہیں بھی تو ایسا نہیں ہوا تھا کہ فاتح لشکر اپنے ہی قاضی کی کہی دو باتوں پر عمل کرے اور شہر کو خالی کردے۔

دینِ رحمت نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ سمرقند ایک عرصہ تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا۔

*مندرجہ بالا واقعہ شیخ علی طنطاوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب (قصص من التاریخ) کے صفحہ نمبر 411 (مصر میں 1932 میں چھپی ہوئی) سے لے کر اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔*

Two pics

دو تصویریں

تربیتی نشست کے دوران ٹھیک ایک بجے لنچ بریک ہوتی ہے ۔وہ اِسی سال کی اُنتیس جولائی تھی ۔ایک بجے بریک کے بعد جائزہ لیا تو ابھی لنچ شروع ہونے میں پانچ دس منٹ باقی تھے ۔
عجیب قدموں کا ساتھ ہے کہ اکثر خواہ مخواہ کسی سِمت میں چل پڑتے ہیں ۔وقت اور ماحول کے تقاضوں سے انجان قدم !! اُس دِن بھی خواہ مخواہ چُپکے سے ایک سمت چل پڑے۔
زیادہ نہیں چلنا پڑا۔محض چند قدم دُور ہی دیوار کے سائے میں ایک پُراسرار سایہ بیٹھا دِکھائی دیا ۔تھوڑا قریب گیا تو پتا چلا کہ ایک مزدور ہے اور اُس کی بھی لنچ بریک چل رہی ہے ۔وہ ننگی زمین پر بیٹھا تھا ۔ اُس کے دائیں پاؤں کے ساتھ ایک شاپنگ بیگ بچھا ہوا تھا اور اُس شاپر پر اُس دِن کے مینو کے مطابق کھانا دھرا تھا۔
اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں دیسی بدیسی شاید ہی کوئی ڈِش ہو گی جو نظر سے نہ گُزری ہو ۔ نیلے کالر سے سفید کالر تک کے سفر میں مُلین سے مُرغن تک ہر بھوجن پر ہاتھ صاف کیا ۔
لیکن وہ ڈِش میرے لیے امتحان بن گئی ۔
چار و نا چار اُس غیر اہم پُرزے کو بھی سلام کرنا پڑا۔
السلام علیکم !!
وعلیکم السلام !!
(عجیب بد تمیز آدمی تھا ۔سلام کا جواب دیتے ہوئے سر بھی نہیں اُٹھایا)
کیا حال ہے بھائی !!
کرم ہے اللہ کا !!
اُس نے لقمہ سلیقے سے توڑتے ہوئے جواب دیا ۔
کیا کھا رہے ہو ؟؟
کھانا کھا رہا ہوں !!
بھائی وہ تو میں بھی دیکھ رہا ہوں کہ کھانا ہی کھا رہے ہو ۔بجری تو بہت دُور پڑی ہے !!
میرا مطلب ہے کہ کھانے میں کیا ہے ؟؟
اُس نے پہلی بار سر اُٹھایا۔ اُس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تھی لیکن چہرے پر بشاشت ، تازگی اور اعتماد کا راج تھا ۔
پراٹھا ہے اور اُس پر لال مِرچیں ہیں !!
میں پنجوں کے بَل اُس کے پہلو میں بیٹھ گیا ۔
صرف ایک پراٹھا اور اُس پر مِرچیں !!
کیا اِس غذا سے تمھیں اتنی طاقت مِل جاتی ہے جو اِتنی سخت مزدوری کر رہے ہو ؟؟
صاحب یہ خوراک تو بس ایک بہانہ ہے طاقت اور ہمت تو کہیں اور سے آتی ہے ۔
اُف اس قوم کا کیا بنے گا جہاں دیکھو فلسفہ اُبل رہا ہے ۔میں نے دِل ہی دِل میں سوچا اور ڈائننگ ہال کا رُخ کیا کہ صبح گھر سے ناشتہ کیے بغیر نکلا تھا اور مزید تاخیر سے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے تھے ۔
لنچ باکس میں پانچ کے قریب آئٹم تھے اور تمام ہی میرے من پسند ۔شاید وہ پہلا لمحہ ہی تھا جب مُجھے اُس کا خیال آیا کہ لنچ باکس لے کر اُس کے پاس چلا جاتا ہوں اور اکھٹے لنچ کر لیتے ہیں ۔اگلے ہی لمحے خیال آیا کہ کون سے میرے فیس بُک فین یہ سب دیکھ رہے ہیں اور ویسے بھی کہانی تو مُجھے مِل ہی چُکی ہے ۔
لیکن وہ جو اُسے ایک روٹی پر لگی نِری مرچوں سے طاقت اور ہمت دیتا ہے ،اُس کے ہاں ابھی کہانی ادھوری تھی ۔
شام چار بجے چھٹی کے بعد سوچا ایک "تاہ " اور کرتا چلوں ۔
وہ اپنے اوزار سمیٹ رہا تھا۔
ایک کونے میں پوزیشن لیتے ہوئے میں نے پُوچھا چُھٹی کر رہے ہو ؟؟
نہیں !! اگلے دِن کی چال بنا رہا ہوں ۔
پاس ہی دیوار کے ایک کھانچے پر اُس کے دِن کے لنچ سے بچا ایک پراٹھے کا ٹکڑا پڑا تھا جس پر درمیانی جسامت والے کالے چیونٹوں نے دھاوا بول رکھا تھا ۔
بے اختیار میرے چہرے پر مُسکراہٹ پھیل گئی ۔ بڑا فلسفہ بگھار رہا تھا ۔ آخر ہمت جواب دے گئی ہو گی ۔نری مرچیں اور وہ بھی لال !! بھلا کوئی انسان کھا سکتا ہے ؟؟
ناراض نہ ہونا ایک بات کہوں ؟؟
جی صاحب اُس نے دوستانہ انداز میں مُسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
وہ بھلے نری مرچ ہی کیوں نہ ہو یا سادہ کچا پکا پراٹھا !! بہرحال رزق ہے اور رزق کی بے حرمتی اللہ کو سخت نا پسند ہے ۔تمھیں پُورا کھانا چاہیے تھا۔
جی صاحب پُورے سے بھی زیادہ کی بُھوک تھی لیکن یہ کالے چیونٹے آپ دیکھ رہے ہیں نا !! اِن میں سے دو پراٹھے پر چڑھ آئے تھے۔ میں نے دو لقمے اِن کے لیے دیوار کے ساتھ ڈال دیے ۔سُنا ہے رِزق بانٹنے سے بڑھتا ہے ۔ اور جو رزق اللہ نے میرے نصیب میں لکھ رکھا ہے وہ میں آپ کو تو پیش کر نہیں سکتا تھا لہذا اللہ نے اِن چیونٹوں کو بھیج دیا ۔سو وہ اپنا حصہ کھا رہے ہیں ۔
میرے معدے میں موجود پانچوں فاسٹ فوڈ آئٹم ہنسنے لگے !!
اور اُن کے بے مہار قہقہوں سے میرے پیٹ میں شدید مروڑ اُٹھنے لگے۔
یہ کوئی افسانہ نہیں اور نہ ہی گھڑی ہوئی کہانی ہے ۔محض پانچ دِن پُرانا واقعہ ہے ۔جن گلیوں سے گزر کر میں روزانہ آتا جاتا ہوں وہاں موجود گھروں کے باہر موجود کیاریوں میں بعض ایسے پودے بھی ہیں جن کی قیمت کا آغاز ہی دو لاکھ سے ہوتا ہے ۔ وہاں گلیوں میں ایسے کُتے ٹہلائے جا رہے ہوتے ہیں کہ جن کی غذا ولایت سے درآمد ہوتی ہے ۔
میں نے اُس کا شکریہ ادا کیا ۔ جاہل آدمی تھا ہونقوں کی طرح تکے جا رہا تھا کہ کس بات کا شکریہ ۔اُسے کیا پتا تھا کہ میں اپنی زندگی میں آنے والے امیر ترین آدمی سے مِل کر جا رہا تھا کہ جس نے میری نظر میں امیر غریب کی تعریف ہی بدل دی تھی ۔جی ہاں عمل کی دُنیا میں پہلی بار دیکھا تھا کہ بانٹنے والے امیر ہوتے ہیں اور جمع کر کر کے گاڑنے والے مُفلس ، غریب اور بے چارے !!

تحریر : عابی مکھنوی

پینڈو...villager

ہم(رحیم یار خان) کے #پینڈو

✅لفظ پینڈو۔۔۔۔۔ آپ نے اکثر سنا ہوگا۔۔۔۔۔ پنڈ میں رہنے والا تو پینڈو ہوتا ہی ہے بلکہ جو شعور نہیں رکھتا اور جاہل ہوتا ہے وہ بھی پینڈو ہی کہلاتا ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ پینڈو جاہل گوار شعور سے عاری ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
✅جب کوئی پینڈو مرتا ہے تو باقی سارے پینڈو اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ کچھ قبر کھودتے ہیں کچھ کھانے پینے کے انتظامات سنبھال لیتے ہیں اور کچھ مرنے والے پینڈو کے مال مویشی کی دیکھ بھال کرنے لگ جاتے ہیں۔۔۔۔۔ اگر پینڈو رات کو مرے تو صبح ہر پینڈو کے گھر سے چائے اور پراٹھے مہمانوں کے ناشتے کے لیے آنے شروع ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
✅پنڈ میں کسی کی گائے بکری مر جائے تو سارے پینڈو تعزیت کے لئے آتے ہیں۔۔۔۔۔
✅پینڈو ۔۔۔۔پنڈ کے سب پینڈیوں کے ہر دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
✅ایک پینڈو چارہ کاٹ کر انتظار کرتا ہے کہ کوئی پینڈو نظر آئے تو اسکو چارہ باندھنے اور اٹھانے میں مدد کرے۔۔۔۔
✅پینڈو عورتیں گھروں کا کام ختم کر کے پھر کھیتوں میں بھی کام کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔
✅پینڈو عورتیں گھر میں جب جھاڑو لگاتی ہیں تو گھر کر سامنے رستے کو بھی صاف کرتی ہیں۔۔۔۔
✅پینڈو لڑکیاں کسی بڑے کو دیکھ کر فوراً سروں پر اوڑھے ڈوپٹے درست کرنے لگتی ہیں۔۔۔۔۔۔
✅پینڈو لڑکیاں گوار ہوتی ہیں ۔۔۔۔ میک اپ کرنا نہیں جانتی ۔۔۔۔۔ ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنتی ہیں سر پر دوپٹے اوڑھے دھلے ہوئے چہرے ۔۔۔۔۔۔۔
✅کچھ بھی پر پینڈو۔۔۔پینڈو ہی ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ شعور جو نہیں رکھتا جاہل ہوتا ہے نا۔۔۔۔۔۔
✅میں خود پینڈو ہوں اور پینڈو ہونے پر فخر ہے مجھ کو۔۔۔۔۔۔۔

Pak afghaan clashes all time

..
..
پاک-افغان چپقلش۔۔۔۔
.۔ذمہ دار کون؟ تاریخی جائزہ
()
پچھلی کئی دھائیوں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات سردمہری اور تناو کا شکار رہے ہیں جو اب نفرت اور دشمنی کی حد تک آپہنچے ہیں۔ ہر دو ممالک کے عوام اور حکومتیں ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتی آئی ہیں جبکہ عوام کی اکثریت خود پاک افغان تعلقات کی مکمل تاریخ سے آگاہ نہیں۔ اکثر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ پاک افغان تعلقات میں سرد مہری "انقلاب ثور" اور اس کے اثرات کے بعد شروع ہوئی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاک افغان تعلقات نومبر 1947 سے ہی خراب ہوچکے تھے۔ اس تحریر میں 1947 سے 2017 تک افغانستان کے مکروہ ترین کردار، ناپاک عزائم اور سازشوں کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔
1947.....
30 ستمبر 1947 کو افغانستان دنیا میں واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی۔اسی دن سے پاک افغانستان تعلقات میں کشیدگی کا آغاز ہوگیا۔ستمبر 1947 میں ہی افغان حکومت نے کابل میں افغان جھنڈے کے ساتھ نام نہاد "پشتونستان" کا جعلی جھنڈا لگا کر پشتونستان تحریک کی بنیاد رکھ دی۔
۔
1949.....
12 اگست 1949 کو باچہ خان کے زیر اثر "فقیر ایپی" نے پشتونستان کی حمایت کا اعلان کیا جس کا افغان حکومت نے پرجوش خیر مقدم کیا۔
31 اگست 1949 کو کابل میں افغان حکومت کے زیر اہتمام ایک جرگہ منعقد کیا گیا جس میں باچہ خان اور فقیر اپی دونوں نے شرکت کی اس جرگےمیں پشتونستان کاز کی حمایت کرتے ہوۓ ہر سال 31 اگست کو "یوم پشتونستان" کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔
اس کے بعد فقیر اپی کے ذاتی جنگجو گروپ(جس کا نام غالبا سرشتہ گروپ تھا) نے وزیرستان  میں افغانستان کی مدد سے چھوٹے پیمانے پر کارروائیوں کا آغاز کردیا۔۔۔۔ بعد میں 1954 میں اپی فقیر کے گروپ کے کماندار "مہر علی" نے ڈپٹی کمشنر بنوں کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوۓ پاکستان سے وفاداری کا اعلان کردیا جس کے بعد فقیر اپی کی بغاوت کا خاتمہ ہوگیا۔۔
1949 میں روس کی بنائی ہوئی افغان فضائیہ کے طیاروں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایسے پمفلٹ گرائے جن میں قبائلی عوام کو پشتونستان کی تحریک کی حمایت کرنے پر ابھارنے کی کوشش کی گئی تھی۔
۔
1950 پاکستان پر حملہ:
ستمبر 1950 میں افغان فوج نے بغیر وارننگ کے بلوچستان میں دوبندی علاقے میں بوگرہ پاس پر حملہ کردیا جس کا مقصد چمن تا تاکوئٹہ ریلوے لنک کو منقطع کرنا تھا۔ ایک ہفتے تک پاکستانی و افغانی افواج میں جھڑپوں کے بعد افغان فوج بھاری نقصان اٹھاتے ہوئے پسپا ہوگئی۔ اس واقعہ پر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے افغان حکومت سے شدید احتجاج کیا۔
۔
1951...پاکستانی وزیر اعظم کا قتل:
16 اکتوبر 1951 کو ایک افغان قوم پرست دہشتگرد "سعد اکبر ببرج" مردود نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں گولی مار کرشہید کردیا۔۔۔یہ قتل افغان حکومت کی ایماء پر ہوا تاہم عالمی دباو سے بچنے کے لیے کسی بھی انوالومنٹ انوالومنٹ سے انکار کردیا۔۔۔ لیاقت علی خان کی شہادت پاکستان میں دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کا پہلا واقعہ تھا یعنی پاکستان میں دہشتگردی کا آغاز افغانستان نے کیا۔
۔
1952....
6 جنوری 1952 کو برطانیہ کے لیے افغانستان کے ایمبیسڈر "شاہ ولی خان" نے بھارت کے اخبار "دی ہندو" کو انٹرویو دیتے ہوۓ یہ ہرزہ سرائی کی کہ "پشتونستان میں چترال ،دیر،سوات، باجوڑ،تیراہ، وزیرستان اور بلوچستان شامل ہوں گے"۔
1953.....
26 نومبر 1953 کو افغانستان کے کےنئے ایمبیسیڈر "غلام یحیی خان طرزی" نے ماسکو،روس کا دورہ کیا جس میں روس(جو تب سوویت اتحاد تھا) نے پاکستان کے خلاف افغانستان کی مکمل مدد کی یقین دہانی کروائی۔
۔
1955....
28 مارچ 1955 میں افغانستان کے صدر "داؤد خان" نے روس کی شہ پا کر پاکستان کے خلاف انتہائی زہر آمیز تقریر کی جس کے بعد 29 مارچ کو کابل، جلال آباد اور کندھار میں افغان شہریوں نے پاکستان کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا آغاز کردیا جس میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی گئی اور پاکستانی پرچم کو اتار کر اس کی بے حرمتی کی گئی۔۔۔جس کے بعد پاکستانی نے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیے اور سفارتی عملے کو واپس بلا لیا۔
حملہ کی ایک اور کوشش:
مئی 1955 میں افغان حکومت نے افغان فوج کو متحرک ہونے کا حکم دے دیا۔ جس پر جنرل ایوب خان نے نےبیان جاری کیا کہ" اگرافغانستان نے کسی قسم کی جارحیت کا ارتکاب کیا تو اسے وہ سبق سکھایا جاۓ گا جو وہ کھبی نہ بھول سکے"۔
انہی دنوں افغانستان کے لیے روس کے ایمبیسیڈر "میخائل وی۔ ڈگٹائر" نے جنگ کی صورت میں افغانستان کو مکمل عسکری امداد کی یقین دہانی کرائی۔
نومبر 1955 میں چند ہزار افغان مسلح قبائلی جنگجو، گروپس  کی صورت میں 160 کلومیٹر کی سرحدی پٹی کے علاقےمیں بلوچستان میں داخل ہوگئے  جس کے بعد کئی مرتبہ مسلح افغانوں کی پاکستانی فوج سے جھڑپیں ہوتی رہیں۔
1960....دوسرا حملہ:
مارچ 1960 افغان فوج نے اپنی سرحدی پوزیشنز سے باجوڑ ایجنسی پر مشین گنوں اور مارٹرز سے گولی باری کی جس کے بعد پاکستانی ائیر فورس کے 26 طیاروں نے افغان فوج کی پوزیشنز پر بمباری کی۔
28 ستمبر 1960 کو افغان فوج نے چند ٹینکوں اور انفینٹری کی مدد سے "باجوڑ ایجنسی" پر حملہ کردیا۔
اور پاکستان آرمی نے ایک مرتبہ پھر افغان فوج کو بھاری نقصان پہنچاتے ہوۓ واپس دھکیل دیا۔
1960 کے دوران پاکستانی فضائیہ کی افغان فوج پر بمباری وقفے وقفے سے جاری رہی۔
1961....تیسرا حملہ:
مئی 1961 میں افغانستان نے باجوڑ ،جندول اور خیبر پر ایک اور محدود پیمانے کا حملہ کیا ۔اس مرتبہ اس حملے کامقابلہ فرنٹیر کور نے کیا اور اس دفعہ بھی پاکستانی پاکستانی فضائیہ کی بمباری نے حملے کا منہ موڑ دیا۔
افغان حکومت نے حملہ کی حقیقت سے انکار کردیا۔
۔
1963....
جولائی 1963 میں ایران کے بادشاہ رضاشاہ پہلوی کی کوششوں سے سےپاکستان و افغانستان نے اپنی سرحدیں کھول کر تعلقات تعلقات بحال کر لیے۔
۔
اس کے بعد کئی سال تک امن رہا۔
۔
1972...
1972 میں اے-این-پی کے اجمل خٹک نے افغانستان کی ایماء پر پشتونستان تحریک کو دوبارہ متحرک کرنے کے لیے کام شروع کردیا۔
۔

1973....
افغانستان کی طرف سے مسلسل سازشی اورپاکستان مخالف سرگرمیوں کےبعد پاکستان کے ذوالفقار بھٹو نے پہلی مرتبہ افغانستان کے خلاف منظم خفیہ سرگرمیاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
اب افغانستان کے برے دن شروع ہونا طے پاچکا تھا۔
۔
تب تک افغانستان کو اندازہ ہوچکا تھا کہ پشتونستان تحریک بری طرح سے ناکام ہوچکی ہے اس لیے اس نے اب بھارت کے ساتھ مل کر "آزاد بلوچستان" تحریک کو بھڑکانا اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی عسکری تربیت شروع کردی۔ تاہم پشتونستان کے نام پر افغان تخریب کاری بھی جاری رہی۔
۔
1973....
1973 میں پشاور میں افغانستان نواز عناصر نے پشتونستان نواز تنظیم "پشتون زلمی" قائم کی۔
۔
1975....حیات خان شیرپاو کا قتل:
فروری 1975 میں افغان نواز تنظیم "پشتون زلمی" نے خیبرپختونخواہ کے گورنر حیات خان شیرپاو کو بم دھماکے میں شہید کردیا۔
(بحوالہ کتاب "فریب ناتمام" از جمعہ خان صوفی)
۔
1978....
28 اپریل 1978 روسی پروردہ کمیونسٹ جماعت "پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان" نے روسی اسلحے اور چند روسی طیاروں کی مدد سے کابل میں بغاوت برپا کردی جسے "انقلاب ثور" کا نام دیا گیا۔
اس کے نتیجے میں صدر داود سمیت ہزاروں افغانیوں کو بیدردی سے ہلاک کردیا گیا اور افغانستان پر کمیونسٹ حکومت قائم کردی گئی۔
کمیونسٹ صدر نجیب نے اقتدار سنبھالتے ہی پشتونستان کی عام حمایت کا اعلان کردیا۔
.
1979...
افغان عوام کمیونسٹ حکومت کے خلاف پوری طاقت سے کھڑے ہوگئے اور کمیونسٹ نجیب ہزاروں افغانوں کا قتل عام کرنے کےباوجود عوامی انقلاب کو روک نہ سکا۔ اپنی حکومت کو خطرے میں دیکھتے ہوۓ نجیب نے روس سے مدد مانگ لی جس کے بعد 24 دسمبر 1979 کو روس نے افغانستان پر حملہ کردیا۔
روسی و افغان کمیونسٹ افواج افغانستان میں قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا جسکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
پاکستان نے اس موقع پر تیس لاکھ سے زیادہ افغانوں کو پناہ اور تحفظ دیا۔ اور روس کے خلاف برسرپیکار افغان مجاہدین کی مکمل مددکی۔
۔
1979 سے 1989 ۔۔۔۔
اس عرصے میں روسی فضائیہ نے کئی مرتبہ پاکستانی سرحدی علاقوں پر بمباری کی اور کے جی بی اور افغان خاد نے اے این پی کی مدد سے پاکستان میں دہشتگردی کی متعدد کارروائیاں کیں جن کے نتیجے میں سینکڑوں پاکستانی شہید ہوۓ۔
۔
2006...
2006 سے اب تک افغانستان بھارت سے ملکر تحریک طالبان پاکستان سمیت پچاس کے قریب دہشتگرد تنظیموں کو تربیت دے رہا ہے جن کے حملوں میں اب تک 70000 پاکستانی شہید اور تین لاکھ زخمی ہوچکے ہیں۔
۔
2014...
16 دسمبر 2014 کو بھارتی را اور افغان این ڈی ایس کے پلان پر 7 افغان دہشتگردوں نے پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کرکے 150 بچوں اور سٹاف کو بیدردی سے شہید کردیا۔
۔
2017....
5 مئی 2017 کو بھارت کی شہ پاکر افغان نیشنل آرمی نے چمن،بلوچستان پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کردیا جس میں 2 پاکستانی فوجی اور 9 سویلینز شہید جبکہ 40 کے قریب زخمی ہوۓ۔
جبکہ 50 افغان فوجی ہلاک اور 5 ملٹری پوسٹس تباہ ہوئیں۔
۔
اس کے علاوہ ہر چند دن کے وقفے سے دہشتگرد افغان سرزمین سے پاکستانی سرحدی پوسٹوں پر مسلسل حملے کررہے ہیں۔
(ختم شد)
اس پوسٹ کو اپنی ٹائم لائن، پیجز اور گروپس میں زیادہ سے زیادہ پھیلائیں۔تاکہ جب بھی کوئ افغان یا اچکزئی و اسفندیارولی کا باچاخانی سرخا پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرے تو اس کا جواب پاکستانیوں کی فنگرٹپس پر ہوں۔ شکریہ۔
..
..