YHH

Please Join me on G+ wncjhang@gmail.com and Subscribe me on Youtube. allinone funandtech....... THANK YOU FOR VISITING MY BLOG AND MY CHANNEL

ضیاء الحق رحمتہ اللہ اور جمہوریت


کچھ بھی نہیں ہو گا۔

1981 میں لاہور باغبانپورہ تھانے کی حدود میں پپو نامی بچہ اغوا ہوا تھا۔ بعد میں اسکی لاش ریلوے کے تالاب سے ملی تھی۔ ضیاءالحق کا مارشل لا تھا۔ قاتل گرفتار ہوئے۔ ٹکٹکی پر لٹکانے کا حکم فوجی عدالت سے جاری ہوا۔ تین دن بعد ٹکٹکی وہاں لگی جہاں آجکل بیگم پورہ والی سبزی منڈی ہے۔ پورے لاہور نے دیکھا پھانسی کیسے لگتی ہے۔ چاروں اغواکار اور قاتل پورا دن پھانسی پر جھولتے رہے۔

ISI. My Heart

وہ تب تک حاوی نہیں ہوسکتے جب تک آپ کی فوج  ہے، فوج کو وہ شکست نہیں دے سکے، اب یہ کام وہ آپ سے لینا چاہتے ہیں۔

بس یہی ففتھ جنریشن وار ہے۔
اگر آپ یہ خود کشی نہیں کرنا چاہتے تو اپنی فوج کو نشانہ بنانا بند کیجیے۔
اور اگر انکا مقابلہ کرنے کا دل ہے تو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو مورچہ سمجھ لیجیے۔۔۔۔۔۔۔
بنیادی طور پر آپ کے تین نمایاں دشمن ہیں۔
لبرلز:  ایمان کے دشمن 
خارجی: جان کے دشمن 
جمہوریے:

بنگالی اور قتیل شفائی

ایک بنگالی نے قتیل شفائی کے پیر پکڑ لئے اور گزارش کرنے لگا...

"دادا ہوم بھی شاعری سیکھے گا"

کافی منت سماجت کے بعد قتیل شفائی مان گئے اور بولے -
جیسے میں بولوں ویسے ہی تم بولنا !!

بنگالی : ٹھیک ہے-

قتیل شفائی :

"نہ گلہ کروں گا ، نہ شکوہ کروں گا.... توسلامت رہے اس دنیا میں ، رب سے یہی دعا کروں گا !!

بنگالی نے دہرایا :

نہ گیلا کورے گا ، نہ سوکھا کورے گا....
تم سالا... مت رہو اس دنیامیں ، روب سے یہی دعا کورے گا !!

😂😂😂

Zindgi Par Ghour Kareen

```​كبھی آپ نے غور كيا؟​

​اِس حسابی عمل نے والله مجھے تو اتنا خوفزده كر ديا كه ميں رو پڑا۔​

يه صحيح هے كه آدمی كی عمر الله تعالی كے هاتھ ميں هے، پھر بھی ​يه فرض كر ليں كه آپ 60سال جيتے هيں۔​

ان 60 سال ميں اگر آپ يوميه 8گھنٹے سوتے هيں تو گويا آپ ​20 سال سونے ميں گزار ديتے هيں۔​

اگر آپ يوميه 8 گھنٹے كام كرتے هيں تو يه بھی 20 سال بنتے هيں۔ لہذا ​20 سال کام میں گزارتے ہیں۔​

​15 سال پر محيط آپ كا بچپن هے۔​

اگر آپ دن ميں دو مرتبه كھانا كھاتے هيں تو كم و بيش نصف گھنٹا صرف هوتا هے۔ يوں آپ كی عمر كے ​3 سال كھانے ميں صرف هوتے هيں۔​

كھانے پينے، سونے، كام كرنے اور بچپن كے يه سال ​مجموعی طور پر 58 سال بنتے هيں۔​
​​باقی بچے 2 سال۔​​

​اب سوال يه هے كه آپ عبادت كے ليے كتنا وقت مختص كرتے هيں؟؟؟!​

الله تعالی نے اگر آپ سے روزِ قيامت يه پوچھ ليا كه تم نے اپنی عمر كن كاموں ميں صرف کی تو آپ كا جواب كيا هوگا؟؟

100 فيصد صحيح بات۔
​قرآن مجيد كے كل صفحوں کی تعداد 600 يا 604 سے زائد نهيں۔ ٹھیک هے؟!​
يقين نہیں آيا تو جلدي سے قرآن مجيد كھول كر ديكھيں اور واپس آئيں۔
كيا آپ نے ديكھ ليا كه قرآن مجيد كے كل كتنے صفحے هيں۔
بہت اچھا! اب هم آگے بڑھتے هيں!!

​قرآن مجيد كے 600 صفحے 30 دن پر تقسيم كريں تو كتنے صفحے روز پڑھتے هيں؟​
پريشان مت هوں۔ بہت آسان حساب هے۔ 20=30/600 ​يعنی 20 صفحے روزانه۔​

هم روز 5 نمازيں پڑھتے هيں۔ 20 كو 5 پر تقسيم كريں۔
4=5/20، جی بالكل 4 صفحے۔
​اگر آپ هر نماز كے بعد 4 صفحے پڑھتے هيں تو آپ روز 20 صفحے كی تلاوت كرليتے هيں۔​

يوں ايک ماه ميں آپ كا تکمیلِ قرآن هو جائے گا اور آپ كو پته بھی نہيں چلے گا۔

​تھوڑا انتظار كريں!​
​پيغام ابھی ختم نهيں هوا!​
​ميں اِسے جلد مكمل كرتا هوں!​
​آخر تک پڑھيں!​
​تھوڑا سا باقی هے!​
اگر آپ يه پيغام اپنے تمام دوستوں كو ارسال كريں اور ديگر بہت سے لوگوں كو بھيجيں، وه آپ كی وجه سے ختمِ قرآن كريں تو كيا آپ جانتے هيں، آپ كو كتنا ثواب ملے گا؟!
جب بھی اُن ميں سے كسی كا ختمِ قرآن هوگا، آپ كے اعمال نامے ميں لكھا جائے گا۔ تو اِس سال آپ يه منافع بخش منصوبه كيوں نهيں شروع كرتے۔
​آپ ايسا كيوں نهيں كرتے كه لوگ آپ كی وجه سے قرآن مکمل كريں؟​
​كيا آپ ابھی بھی سوچ رهے هيں؟​

نيکی کی رهنمائی كرنے والا نيکی كرنے والے کی طرح هے۔
جو شخص الله كا قرب چاهتا هے، وه يه پيغام آگے ارسال كرے اور ان شاء الله كئی گنا ثواب پائے۔
آپ كو جب بھی گناه كرنے كا خيال آئے، يه تين آيتيں ذہن ميں لائيں:

​اَلَمْ يَعْلَمْ بِاَنَّ اللّٰهَ يَرٰي ’’كيا اس نے جانا نہیں كه بلاشبہ الله اسے ديكھ رها هے۔‘‘​

​وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ ’’اور جو اپنے رب كے سامنے كھڑے ہونے سے ڈر گيا، اس كے ليے دو جنتيں ہيں۔‘‘​

​وَ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا ’’اور جو اللہ سے ڈرتا ہے تو وہ اس كے ليے (مشكلات سے) نكلنے كا راستہ بنا ديتا ہے۔‘‘​

اگر آپ كو يہ باتيں پسند آئی ہيں تو ان كو آگے ارسال كرنے سے پہلے واپس نہ جائيں۔
كيونكہ نيکی كی رہنمائی كرنے والا نيکی كرنے والے كی طرح ہے۔
​آپ مجھے عزيز ہيں، اس ليے ميں نے آپ كو يہ پيغام بھيجا۔​
آپ بھی اپنے اعزہ كو يہ پيغام بھيجنے ميں بخل سے كام نہ لیں```

Girl to women jurney

جب ایک اٹھارہ سالہ لڑکی اور بیس سالہ لڑکے کے شادی ہوتی ھے تو !!!!

دوسرے ہی دن لڑکی بیوی , بھابھی, چاچی, مامی, تائ, اور سب سے خطرناک رشتہ بہو میں بندھ جاتی ھے ,سال ڈیڑھ سال میں نمانی ماں کے رتبے کو بھی حاصل کرکے اپنی زندگی تیاگ دیتی ھے

لیکن '
 
اسی شادی کے بعد لڑکا صرف مرد میں بدل کے ایک حیثیت کے دائرہ میں آجاتا ھے " داماد" اب وہ صرف داماد اور شوہر ھے ,جس کے اختیار میں ایک لڑکی آچکی ,وہ جیسے چاہے اس سے سلوک کرے

اٹھارہ سالہ لڑکی شادی کے دو چار دن ( زیادہ لکھ دیئے) بعد ہی رشتوں کی نزاکتوں کو سمجھنے پہ مجبور ہوجاتی ھے اور اپنی عمر سے چھ آٹھ سال آگے بڑھ جاتی ھے

اٹھارہ سالہ لڑکی, انیس سال میں ماں بن کے اچانک تیس چالیس سال کی تجربہ کار عورت میں بدل جاتی ھے جو راتوں کو بچوں کے ساتھ,  اور دن میں خاندان کے ہر ایک رشتے کے حساب سے چلتی ھے اور شوہر کے بدلتے موڈ کو بھی مدِنظر رکھ کے اپنی عزت بچاتی ھے

جیسے ہی بچے اسکول جانے کے قابل ہوتے ہیں, اب وہ چوبیس پچس سال کی لڑکی / عورت صرف ایک " کان " بن جاتی ھے جس میں بچوں کی اسکول,  ٹیوشن,  قاری صاحب, دوستوں کی باتیں جاتی ہیں یا میاں کی کاروباری ٹیشن,  آفس کے مسائل, سیاست کی کہانیاں انڈیلی جاتی ہیں ساتھ ساتھ سسرالی رشتے داروں یعنی تنی ہوئ رسی پہ چلنا بھی اولین فرض ھے

وہ اٹھارہ سال کی لڑکی جو اپنی بےفکری کی زندگی جی چکی یعنی پورے اٹھارہ سال جس میں سے چودہ سال اگر اسکول کالج کے نکال دیں تو اس نے اپنی شاندار زندگی پیدائش سے چار سال کی عمر تک بھرپور جی لی ہوتی ھے

وہ اب ایک بہترین کک ھے, ماسی ھے,  برتن دھونے والی ھے,  بچوں کی آیا, ھے,  نرس ھے,  ڈاکٹر ھے, ڈرائیور ھے,  گھر کی چوکیدار ھے,  کیشیئر ھے,  بجٹ بنانے والی ھے,  بینک ھے,  دھوبن ھے, پریس کرنے والی ھے, ٹیلر ھے, استانی ھے,  کونسلنگ کرنے والی ھے, الارم ھے,  اور سب سے بڑھ کے وہ صرف ایک " کان " ھے,  جہاں زمانے بھر کی باتیں جاتی ہیں

اور کوئ نہی سوچتا شادی سے پہلے جو لڑکی گھومنے کی شوقین,  کھانے پینے کی رسیا,  پڑھنے کی لت میں مبتلا,  خوشبوؤں میں بسنے والی,  میٹھا بولنے والی,  دھیما چلنےوالی کہاں گم ہوجاتی ھے وہ کیوں زبان کی تلخ,  کپڑے لتے سے بےفکر, جو ملا کھالیا,  ہر وقت کی جلدی میں کیوں رہتی ھے,  نک سک سے تیار رہنے والی حال سے بے حال ہوکے صرف خاندانی شادیوں اور دعوت میں ہی تیار کیوں ہوتی ھے

کیا وہ شادی سے پہلے کوئ ٹریننگ حاصل کرتی ھے بچے پالنے اور پیدا کرنے کی
کیا وہ شادی ان ساری زمہ داریوں کو لینے کے لیے کرتی ھے
کیا وہ شادی گھر کے کاموں کے لیے کرتی ھے
کیا وہ شوہر کے اشاروں پہ چلنے کے لیے اپنے ماں باپ چھوڑتی ھے
کیا وہ سسرالی رشتےداروں کے طعنے کھانے شادی کرتی ھے
کیا وہ ڈھیر جہیز لینے کے لیے شادی کرتی ھے ساتھ اگر شوہر بعد میں پھنسے تو اپنے ماں باپ سے مدد کروانے پہ بھی تیار رہتی ھے
اگر نہی تو.....

وہ بھی صرف چاہے جانے,  سراہنے, ناز ونخرے اٹھوانے کے لیے شادی کرتی ھے جیسے ایک لڑکا کرتا ھے .

جب ایک لڑکا ایک دن کے بچے, کو اٹھاتے ڑرتا ھے تو یقین جانیں وہ لڑکی بھی ڈرتی ھے, 
جب ایک لڑکا اپنے سسرال میں جاکے " ایزی " فیل نہی کرتا تو اسکا بھی یقین رکھیں وہ انجان لڑکی بھی ایک قیامت سے گزرتی ھے پورے سسرال کے مزاج کو سمجھنے میں
جب ایک لڑکا اپنی معاشی ذمہ داریوں سے گھبراجاتا ھے تو یقین مانیئے وہ لڑکی بھی ایک جیسی روٹین, گھر کے کاموں کی زمہ داریوں سے اوب جاتی ھے
جب وہ لڑکا بچوں کی تعداد یا ان کے اسکول کالج کی فیس سے ٹینشن میں آتا ھے تو ایسا کیسے ممکن ھے وہ لڑکی جو چوبیس گھنٹے گھر میں رہتی ھے وہ ٹیشن نا برداشت کرے
جب لڑکا اتوار کو دن چڑھے سوتا ھے تو لڑکی کا دل نہی کرسکتا ایک دن کی چھٹی مل جائے کچن سے
جب لڑکا اتوار کے دن دوستوں میں جاسکتا ھے تو اس لڑکی کا دل پھتر کا تو نہی بنا جو شادی کے بعد پچھلے سارے رشتے ناطے تیاگ ڈالے

بات صرف احساس کی ھے,  وہ رفتہ رفتہ ختم ہوتاھے ہر رشتہ اپنی موت آپ مرجاتا ھے___!

خلا تو پیدا ہی نہیں ہوتا

( اظہار الحق صاحب کی ایک خوبصورت تحریر. ) جسے پڑھتے پڑھتے خود اپنا سانس رکنے لگنا ہے

تلخ نوائ

میری وفات

سرما کی ایک یخ زدہ  ٹھٹھرتی شام تھی جب میری وفات  ہوئی۔

اس دن صبح سے بارش ہو رہی تھی۔ بیوی صبح  ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی ۔ڈاکٹر نے دوائیں  تبدیل کیں  مگر خلافِ معمول خاموش رہا۔مجھ سے کوئی بات کی نہ میری بیوی سے۔بس خالی خالی آنکھوں سے ہم دونوں کو دیکھتا رہا۔

دوپہر تک حالت اور بگڑ گئی۔جو بیٹا پاکستان میں تھا'وہ ایک تربیتی کورس کے سلسلے میں بیرون ملک تھا۔چھوٹی بیٹی اور اس کا میاں  دونوں یونیسف کے سروےکے لیے کراچی ڈیوٹی پر تھے۔لاہور والی بیٹی کو بھی میں نے فون نہ کرنے دیا کہ اس کا میاں بے حد مصروف  ہے اور بچوں کی وجہ سے خود اس کا آنا بھی مشکل ہے۔رہے  دو لڑکے جو بیرون ملک ہیں 'انہیں  پریشان کرنے کی کوئی تُک  نہ تھی !یوں  صرف میں اور بیوی ہی گھر پر تھے اور ایک ملازم!جو شام ڈھلے اپنے گھر چلا  جاتا تھا۔

عصر ڈھلنے لگی تو مجھے  محسوس ہوا کہ نقاہت کے مارے بات کرنا مشکل ہورہا ہے۔میں نے اپنی پرانی ڈائری نکالی 'بیوی کو پاس  بٹھا کر رقوم کی تفصیل بتانے لگا جو میں نے وصول کرنا تھیں اور دوسروں کو ادا کرنا تھیں ۔بیوی نے ہلکا سا احتجاج کیا ۔"یہ تو آپ کی پرانی عادت ہے۔ذرا  بھی کچھ ہو تو ڈائری نکال کر بیٹھ جاتے ہیں "مگر اس کے احتجاج میں پہلے والا یقین نہیں تھا۔پھر سورج غروب ہوگیا ۔تاریکی اور سردی دونوں بڑھنے لگیں۔بیوی میرے لیے سُوپ بنانے  کچن میں  گئی۔اس کی غیر حاضری میں مَیں نے چند اکھڑی اکھڑی سانسیں لیں اور غروب ہوگیا۔

مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میں  آہستہ آہستہ اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں ۔پھر جیسےمیں ہوا میں تیرنے لگا  اور چھت کے قریب جاپہنچا۔بیوی سُوپ لے کر آئی تو میں دیکھ رہا تھا۔ایک لمحے کے لیے اس پر سکتہ طاری ہوا اور پھر دھاڑیں مار کر رونے لگی۔میں نے بولنے کی کوشش کی یہ عجیب بات تھی کہ میں سب کچھ دیکھ رہا تھامگر بول نہیں سکتا تھا۔

لاہور والی بیٹی رات کے پچھلے پہر پہنچ گئی ۔کراچی سے بھی چھوٹی بیٹی اور میاں صبح کی پہلی فلائیٹ سے پہنچ گئے۔بیٹے تینوں بیرون ملک تھے وہ جلد سے جلد بھی آتے تو دو دن لگ جانے تھے۔دوسرے دن عصر کے بعد میری تدفین کردی گئی۔شاعر'ادیب' صحافی' سول سرونٹ سب کی نمائندگی اچھی خاصی تھی۔گاؤں سے بھی تقریباً سبھی آگئے تھے ۔ننھیا ل والے گاؤں سے ماموں زاد بھائی بھی تینوں موجود تھے۔

لحد میں میرے اوپر جو سلیں رکھی گئی تھیں مٹی ان سے گزر کر اندر آگئی تھی۔بائیں پاؤں کا انگوٹھا جو آرتھرائٹس کا شکار تھا 'مٹی کے بوجھ سے درد کررہا تھا۔پھر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی ۔شاید فرشتے آن پہنچے تھے۔اسی کیفیت میں سوال جواب کا سیشن ہوا۔یہ کیفیت ختم ہوئی۔محسوس ہورہا تھا کہ چند لمحے ہی گزرے ہیں مگر فرشتوں نے بتایا کہ پانچ برس ہوچکے ہیں ۔ پھر فرشتوں نے ایک عجیب پیشکش کی۔"ہم تمھیں کچھ عرصہ کے لیے واپس بھیج رہے ہیں ۔تم وہاں'دنیا میں 'کسی کو نظر نہیں آؤ گے'گھوم  پھر کر'اپنے پیاروں کو دیکھ لو'پھر اگر تم نے کہا تو تمھیں  دوبارہ نارمل زندگی دے دیں گے ۔ورنہ واپس آجانا۔"

میں نے یہ پیشکش غنیمت سمجھی اور فوراً ہاں کردی۔یہ الگ بات کہ فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا۔ پھر ایک مدہوشی کی حالت چھا گئی۔آنکھ کھلی تو میں اپنی گلی میں تھا۔

آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اپنے گھر کی جانب چلا ۔راستے میں  کرنل صاحب کودیکھا ۔گھر سے باہر کھڑے تھے ۔اتنے زیادہ بوڑھے لگ رہے تھے۔خواجہ صاحب بیگم کے ساتھ واک کرنے نکل رہے تھے۔اپنے مکان کے گیٹ  پر پہنچ کر میں  ٹھٹھک گیا۔ میرے نام کی تختی غائب تھی۔ پورچ میں گاڑی بھی نہیں کھڑی تھی۔وفات سے چند ہفتے پہلے تازہ ترین ماڈل کی خریدی تھی۔اس کا سن روف بھی تھا اور چمڑے کی اوریجنل سیٹیں تھیں  دھچکا سا لگا۔گاڑی کہاں ہوسکتی ہے؟ بچوں کے پاس تو اپنی اپنی گاڑیاں  موجود تھیں ۔تو پھر میری بیوی جو اب بیوہ تھی'کیا گاڑی کے بغیر تھی؟

دروازہ کھلا تھا۔میں سب سے پہلے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اپنی لائبریری میں گیا۔یہ کیا ؟کتابیں تھیں نہ الماریاں !رائٹنگ ٹیبل اس کے ساتھ والی مہنگی کرسی'صوفہ' اعلیٰ مرکزی ملازمت کے دوران جو شیلڈیں اور یادگاریں مجھے ملی تھیں  اور الماریوں کے اوپر سجا کر رکھی ہوئی تھیں ۔بے شمار فوٹو البم' کچھ بھی تو وہاں نہ تھا۔ مجھے فارسی کی قیمتی'ایران سے چھپی  ہوئی کتابیں یاد آئیں 'دادا جان کے چھوڑے ہوئے قیمتی قلمی نسخے 'گلستان سعدی کا نادر نسخہ  جو سونے کے پانی سے لکھا ہوا تھا اور دھوپ میں اور چھاؤں میں الگ  الگ رنگ کی لکھائی دکھاتا تھا'داداجان اور والد صاحب  کی ذاتی ڈائریاں سب غائب تھیں ۔کمرہ یوں   لگتا تھا  'گودام کے طور پر استعمال ہو رہا تھا سامنے والی پوری دیوار پر جو تصویر پندرہ ہزار روپے سے لگوائی تھی 'جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی۔فاؤنٹین پینوں کا بڑا ذخیرہ تھا میرے پاس 'پارکر'شیفر'کراس وہ بھی دراز میں نہیں تھا۔

میں پژمردہ ہوکر لائبریری سے باہر نکل آیا۔ بالائی منزل کا یہ وسیع و عریض لاؤنج بھائیں بھائیں کررہا تھا۔ یہ کیا؟اچانک مجھے یاد آیا' میں نے چکوال سے رنگین پایوں والے' سُوت سے بُنے ہوئے 'چار پلنگ منگوا کر اس لاؤنج میں رکھے تھے شاعر برادری کو یہ بہت پسند آئے تھے۔ وہ غائب تھے۔

نیچے گراؤنڈ فلور پر آیا 'بیوی اکیلی کچن میں کچھ کررہی تھی۔میں نے اسے دیکھا۔پانچ برسوں میں اتنی تبدیل ہوگئی تھی! میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔کیسے پوچھوں کہ گھٹنوں کے درد کا کیا حال ہے؟ایڑیوں میں بھی درد محسوس ہوتا تھا۔دوائیں باقائدگی سے میسر آرہی تھیں یا نہیں ؟میں اس کے لیے باقائدگی سے پھل لاتا تھا۔ نہ جانے بچے کیا سلوک کررہے ہیں ۔مگر میں تو بول نہ سکتا تھا۔نہ ہی وہ مجھے دیکھ سکتی تھی۔

اتنے میں فون کی گھنٹی بجی بیوی بہت دیر باتیں کرتی رہی۔جو کچھ اس طویل گفتگو سے میں سمجھا'یہ تھا کہ بچے اس مکان کو  فروخت کرنا چاہتے تھے۔ماں نے مخالفت کی کہ وہ کہاں رہے گی۔بچے مصر تھے کہ ہمارے پاس رہیں گی! بیوی کو میری نصحیت یاد تھی کہ ڈیرہ اپنا ہی اچھا ہوتا ہے مگر وہ بچوں کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال رہی تھی۔گاڑی کا معلوم ہوا کہ بیچی جاچکی تھی۔بیوی نے خود ہی بیچنے کے لیے کہا تھا  کہ اسے ایک چھوٹی آلٹو ہی کافی ہوگی۔

اتنے میں ملازم لاؤنج میں داخل ہوا ۔یہ نوجوان اب ادھیڑ عمر لگ رہا تھا۔میں اس کا لباس دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ اس نے میری  قیمتی برانڈڈ قمیض جو ہانگ کانگ سے خریدی تھی پہنی ہوئی تھی۔نیچے وہ پتلون تھی جس کا فیبرک میں نے اٹلی سے لیا تھا!اچھا 'تو میرے  بیش بہا  ملبوسات ملازموں میں تقسیم ہوچکے تھے!

میں ایک سال' لوگوں کی نگاہوں سے غائب رہ کر' سب کو دیکھتا رہا۔ایک ایک بیٹے'بیٹی کے گھر جاکر ان کی باتیں سنیں ۔کبھی کبھار ہی ابا مرحوم کایعنی میرا ذکر آتا۔وہ بھی سرسری سا۔ہاں !زینب'میری نواسی'اکثر نانا ابو کا تذکرہ کرتی۔ایک دن ماں سے کہہ رہی تھی۔"اماں یہ بانس کی میز کرسی نانا ابو لائے تھے جب میں  چھوٹی سی تھی۔اسے پھینکنا نہیں "ماں نے جواب میں کہا' " جلدی سے کپڑے بدل کر کھانا کھاؤ 'پھر مجھے میری سہیلی کے گھر ڈراپ کرو"۔

میں شاعروں ادیبوں  کے اجتماعات اور نشستوں میں گیا ۔کہیں اپنا ذکر نہ سنا ۔وہ جو بات بات پر مجھے جدید غزل کا ٹرینڈ سیٹر کہا کرتے تھے'جیسے بھول ہی تو چکے تھے۔اب ان کے ملازموں نے میری کتابیں ڈسپلے سے ہٹا دی تھیں ۔ایک چکر میں نے قبرستان کا لگایا۔میری قبر کا برا حال تھا گھاس اگی تھی۔کتبہ پرندوں کی بیٹ سے اٹا تھا۔ساتھ والی قبروں کی حالت بھی زیادہ بہتر نہ تھی۔

ایک سال کے جائزے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میری موت سے دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔رمق بھر بھی نہیں ! بیوی یاد کرلیتی تھی تاہم بچے'پوتے نواسےپوتیاں سب بھول چکی تھیں ۔ادبی حلقوں کے لیے میں اب تاریخ کا حصہ بن چکا تھا۔جن بڑے بڑے محکموں اور  اداروں کا میں سربراہ رہا تھا وہاں ناموں والے پرانے بورڈ تک ہٹ چکے تھےاور نئے بورڈ بھی مسلسل بھرتے جارہے تھے۔دنیا رواں دواں تھی۔کہیں بھی میری ضرورت نہ تھی۔گھر میں نہ باہر!

پھر تہذیبی'معاشرتی اور اقتصادی تبدیلیاں تیزی سے آرہی تھیں اور آئے جارہی تھیں ' ہوائی جہازوں کی رفتار چار گنا بڑھ چکی تھی۔دنیا کا سارا نظام سمٹ کر موبائل فون کے اندر آچکا تھا۔میں ان جدید ترین موبائلوں کا استعمال ہی نہ جانتا تھا۔

فرض کیجئے 'میں فرشتوں سے التماس کرکے  دوبارہ دنیا میں نارمل زندگی گزارنے آ بھی جاتا تو کہیں  خؤش آمدید نہ  کہا جاتا!بچے پریشان ہوجاتے'ان کی زندگیوں کے اپنے منصوبے اور پروگرام تھے جن میں اب میری گنجائش کہیں نہ تھی! ہوسکتا ہے بیوی بھی کہہ دے کہ تم نے واپس آکر میرے مسائل میں  اضافہ کردیا ہے۔مکان بک چکا' میں ایک تو کسی بچے کے پاس رہ لیتی' دو کو اب وہ کہاں سنبھالتے پھریں گے! دوست تھوڑے یہ اب باقی بچے تھے ۔وہ بھی اب بیمار اور چل چلاؤ کے مراحل کا سامنا  کررہے تھے!میں واپس  آتا تو دنیا میں  مکمل طور پر اَن فِٹ ہوتا ۔ نئے لباس میں پیوند کی طرح۔جدید  بستی میں پرانے مقبرے کی مانند!

میں نے فرشتے سے رابطہ کیا  اور اپنی آخری چوائس بتا دی۔میں واپس قبر میں جانا چاہتا ہوں !فرشتہ مسکرایا۔اس کا کمنٹ بہت مختصر تھا۔

"ہر انسان  یہی سمجھتا ہے کہ اس کے بعد جو خلا پیدا ہوگا'کبھی بھرا نہیں جاسکے گا'مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ خلا تو پیدا ہی نہیں ہوتا!

سپر پاور امریکہ اور پاکستان.Super Power USA& PAKISTAN


ٹھیک آٹھ سال پہلے برطانوی جریدے " اکانومسٹ " نے جنرل کیانی کا یہ کارٹون ایک سنسنی خیز کہانی کے ساتھ شائع کیا۔ 

آپ دیکھ سکتے ہیں کارٹون میں جنرل کیانی شطرنج کھیل رہے ہیں۔
لیکن شطرنج کی اس بساط کے مہرے سیاست دان، پاک فوج، افغان طالبان، ٹی ٹی پی اور امریکی فوج ہیں۔

اکانومسٹ نے وکی لیکس کی بعض رپورٹوں کے حوالے سے اندیشہ ظاہر کیا کہ شائد پاکستانی جی ایچ کیو میں بیٹھے ٹھنڈے دماغوں والے جرنیل امریکہ کے ساتھ کوئی پیچیدہ مگر خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں جسکا انجام امریکہ کی یقینی شکست ہوگا۔

یہ کہانی جنرل کیانی کے 2009ء میں دورہ روس کے بعد شائع کی گئی۔ اس دورے کے حوالے سے مغربی تجزیہ کاروں کو یقین تھا کہ پاکستان کے ہاتھوں ٹوٹنے والا روس دوبارہ کبھی پاکستان کے قریب نہیں آئیگا۔

لیکن جنرل کیانی نے روس کو قائل کرکے سب کو حیران کر دیا۔ تب چہ مگوئیاں شروع ہوئیں کہ بھلا امریکہ کے " فرنٹ لائن اتحادی " کو  روس کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟  آنے والے وقت کی پیش بندی؟

اس کے بعد امریکہ نے پاکستان پر شمالی وزیرستان آپریشن کے لیے دباؤ بڑھانا شروع کیا۔ اسی سلسلے میں امریکی چیف آف جوائنٹ سٹاف مائیکل مولن نے جنرل کیانی سے کئی ملاقاتیں کیں۔

ایسی ہی ایک ملاقات میں تین گھنٹے تک مسلسل مائیکل مولن کے دلائل خاموشی سے سننے کے بعد جنرل کیانی نے جواباً صرف ایک جملہ کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " آئی ایم ناٹ کنونسڈ " ۔۔۔۔ یعنی میں قائل نہیں ہوا۔

امریکہ کی شنوائی نہیں ہوسکی۔

( شمالی وزیرستان میں پاک فوج نے بہت بعد میں تب آپریشن کیا جب امریکہ نہیں چاہ رہا تھا کہ اب آپریشن ہو)

آج آٹھ سال بعد بظاہر برطانوی جریدے کے وہ اندیشے درست ثابت ہو رہے ہیں۔ پوری دنیا سے کھلواڑ کرنے والا امریکہ چیخ رہا ہے کہ پاکستان مسلسل 15 سال تک ہمارے ساتھ کھیلتا رہا۔

انسانی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی قوت بظاہر شکست کھا رہی ہے۔

پاک فوج اور آئی ایس آئی- زندہ باد

وہ تب تک حاوی نہیں ہوسکتے جب تک آپ کی فوج  ہے، فوج کو وہ شکست نہیں دے سکے، اب یہ کام وہ آپ سے لینا چاہتے ہیں۔

بس یہی ففتھ جنریشن وار ہے۔

اگر آپ یہ خود کشی نہیں کرنا چاہتے تو اپنی فوج کو نشانہ بنانا بند کیجیے۔

اور اگر انکا مقابلہ کرنے کا دل ہے تو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو مورچہ سمجھ لیجیے۔۔۔۔۔۔۔

بنیادی طور پر آپ کے تین نمایاں دشمن ہیں۔

لبرلز:  ایمان کے دشمن
خارجی: جان کے دشمن
جمہوریے: مال کے دشمن

تینوں کے پاس خوبصورت نعرے

لبرلز انسانیت کا نعرہ،
خارجی اسلام کا نعرہ،
اور جمہوریے حقوق کا نعرہ،

لیکن حقیقت میں ایک کافر کرتا ہے، دوسرا مارتا ہے اور تیسرا لوٹتا ہے۔

تینوں کا آپس میں ایک غیراعلانیہ اتحاد ہے۔ 

آپ غور کیجیے  ۔۔۔۔۔۔۔

پیپلز پارٹی دہشت گردوں کی فنڈنگ اور علاج کرتی رہی، 
ن لیگ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کو ناکام بناتی ہے،
لبرلز بی ایل اے کا کیس مسنگ پرسنز کے نام سے لڑتے ہیں،
عاصمہ جہانگیر ٹی ٹی پی کے خلاف آرمی عدالتوں کے فیصلوں کو کلعدم کرواتی ہیں،
دہشت گرد نواز شریف کے لیے ماڈل ٹاؤن جاکر لڑتے ہیں،
وقاص گوریا سوشل میڈیا پر نواز شریف کا کیس لڑتا ہے،

اور ان تینوں کا مشترکہ دشمن کون؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔  پاک فوج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!!

خارجی پاک فوج کو اسلام دشمن کہہ کر،
لبرلز پاک فوج کو دہشت گرد کہہ کر،
اور سیاست دان پاک فوج کو جمہوریت دشمن کہہ کر اس پر حملہ آور ہیں،

ان کو امریکہ، برطانیہ اور انڈیا کی بھرپور مدد و حمایت حاصل ہے۔

ان سے لڑنا کیسے ہے؟

1 ۔۔۔ سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف پوسٹ کیا گیا مواد ہرگز شیر مت کیجیے۔

2 ۔۔۔۔ ایسے مواد پر لائک یا کمنٹ مت کیجیے۔ مخالفت میں بھی کمنٹ کرینگے تو وہ پوسٹ کی ریچ بڑھا دیگا۔

3۔۔۔۔۔۔ ہوسکے تو فیس بک کو رپورٹ کیجیے۔

4 ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس اکاؤنٹس سے ایسا مواد شیر کیا گیا ہے اسکو انفرینڈ یا انلائک کیجیے۔

5 ۔۔۔۔۔ ایسے اکاؤنٹس اکثر فیک ہوتے ہیں اس لیے فیس بک کو رپورٹ کیجیے۔

6 ۔۔۔۔ پاک فوج کو سپورٹ کرنے والا مواد گروپس میں اور وٹس ایپ وغیرہ پر زیادہ سے زیادہ شیر کیجیے۔

7 ۔۔ پاک فوج کی سپورٹ میں بنائے گئے پیجز اور اکاؤنٹس کو لائیک یا فالو کیجیے۔

8 ۔۔۔۔ خود بھی لکھنے کی کوشش کیجیے۔

9 ۔۔۔۔۔ یہ فوج آپ کے لیے جانیں دے رہی ہے اس پر بھروسہ رکھئے۔ غیر واضح معاملات میں دشمن آپ کو فوج سے بدگمان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی باتوں میں مت آئیے۔

" فوج اچھی ہے اور جرنیل برے ہیں" کہہ کر آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔

ان کے سامنے پاک فوج کی قربانی کی خبر پیش کریں تو بظاہر غم زدہ ہونے کا ڈراما کرتے ہوئے آپ کو بتائنگے کہ " یہ فلاں جرنیل کی غلطی ہے" اور یوں پاک فوج پر ہی تنقید کرینگے۔

اگر دشمن حملہ کرے تو بجائے اس کو ملامت کرنے کے یہ آپ کو پاک فوج کو ہی ملات کرتے نظر آئنگے  کہ " کہاں گئی اپ کی جانباز فوج" ۔۔۔۔

ان کی ٹائم لائن پر سوائے پر پاک فوج پر تنقید کے آپ کو کچھ نہیں ملے گا لیکن واویلا مچائنگے کہ " وہ کون سی مقدس گائے ہے جس پر تنقید کی اجازت نہیں " ۔۔۔۔۔  :) ۔۔ آپ کو علم ہونا چاہئے کہ پاکستان میں فوج پر جتنی بے دھڑک تنقید ہوتی ہے دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ہوتی۔

ان کی ان چالوں کو سمجھیے۔ 

گستاخانہ پیجز چلانے والے، آپ کو بموں سے اڑانے والے اور آپ کو لوٹنے والے ہرگز ہرگز ہرگز آپ کے خیر خواہ نہیں ہیں۔

خدا کی قسم پاک فوج نہ رہی تو افغانستان اور انڈیا آپ کو کھا جائنگے۔ ان کو تو چھوڑیں آپ ان خوارج سے ہی نہیں نمٹ سکیں گے جن کو صرف آپ کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

اسلام کے خلاف جنگ میں پاکستان اہم ترین قلعہ ہے اور پاکستان تب تک فتح نہیں ہو سکتا جب تک پاک فوج موجود ہے۔ اپنی ہی فوج کو شکست دینے میں دشمن کا ہاتھ مت بٹائیے۔

تحریر شاہدخان

نوٹ ۔۔ اپنی جنگ کا آغاز اس مضمون کو شیر کر کے کیجیے۔