میرا جسم میری مرضی........ڈاکٹر حافظ محمد زبیر
پیر19 مارچ2018ء )ذریعہ: فیس بک(
خواتین کے عالمی دن لاہور میں کچھ عورتوں نے اس طرح کے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے احتجاج کیا کہ "میرا جسم میری مرضی" اور "اپنا کھانا خود گرم کر لو" وغیرہ وغیرہ۔ خواتین کے عالمی دن پر پوری دنیا میں عورتیں اس طرح کے احتجاج کرتی ہیں کہ جن میں سے بعض ممالک میں وہ "میرا جسم میری مرضی" کا نعرہ لگاتے ہوئے غصے میں اپنی قمیص اور ٹاپ بھی اتار پھینکتی ہیں۔مردوں نے ان کو کیا خوب بے وقوف بنایا ہے کہ انہیں پہلے کہا کہ تمہیں گھروں میں قید کر دیا گیا ہے لہذا آزادی کا مطلب ہے کہ گھر سے باہر نکلو۔ پھر کہا کہ تمہیں مردوں کے برابر حقوق حاصل نہیں ہیں لہذا مساوات کا مطلب ہے کہ تمہیں مردوں کے برابر حقوق حاصل ہوں۔ اور مردوں کے برابر حقوق کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں ملازمت میں برابر کا حق حاصل ہو۔ اب مرد نے اسے تو حقوق کے نام پر ملازمت پر لگا دیا ہے اور خود گھر میں سکون سے بیٹھا عیاشی کر رہا ہے۔مجھے تو ان کے ایسے نعرے سن کر وہ حکایت یاد آتی ہے کہ ایک کسان نے کھیت میں بھینس کو ہل چلانے پر لگایا ہوا تھا اور ساتھ چھپر میں بیل صاحب آرام فرما رہے تھے۔ کسی سیانے کا گزر ہوا تو اس نے کسان سے پوچھا کہ یہ کیا تماشا ہے کہ بیل چھپر کے نیچے باندھا ہے اور بھینس کو ہل میں جوتا ہوا ہے! تو کسان نے کہا کہ یہ بی بی شہر سے آئی ہے۔ اس کی شہر کی سہیلیوں نے اسے سمجھا کربھیجا تھا کہ دیہات میں عورتوں کو حقوق پورے نہیں ملتے لہذا تم نے پہلے ہی دن اپنے مالک سے اپنے حقوق کی بات کرنی ہے۔تو پہلے ہی دن اس نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ مجھے بیل کے برابر حقوق چاہییں۔ تو میں نے اسے کہا کہ بیل تو ہل جوتتا ہے۔ تو اس نے کہا کہ میں گھر میں قید ہو کر نہیں رہ سکتی، مجھے آزادی چاہیے، مجھے باہر نکلنا ہے، جو کام بیل کرتا ہے وہ میں بھی کر سکتی ہوں۔ تو میں نے اسے ہل جوتنے پر لگا دیا۔ اب یہ خوشی خوشی کھیت میں کام کرتی ہے، دودھ بھی دیتی ہے اور بیل کے پاس کرنے کو کام نہیں ہے لہذا وہ سارا دن چھپر میں آرام فرماتا ہے اور مزید اپنے حقوق مانگنے پر اکساتا رہتا ہے۔تو یہ ہے وویمن رائٹس کے نام پر عورتوں سے ہونے والا ہاتھ لیکن ان بیچاریوں کو کہاں سمجھ میں آتی ہے۔ یہ بچے بھی پیدا کریں گی، گھر کا کام بھی کریں گی، ملازمت بھی کریں گی اور یہ سب کچھ اپنے حقوق کے نام پر کریں گی۔ اور اب مردوں نے ان کو پٹی پڑھائی ہے کہ تمہارا جسم اور تمہاری مرضی۔ نکاح اور شادی کے بغیر مرد کو خوش کرو، اس کی یہ آخری خواہش بھی اپنے حقوق کے نام پر پوری کر دو اور اسے باپ ہونے کی آخری ذمہ داری سے بھی آزاد کر دو۔تو مرد نے اسے بازار میں بیٹھی ایک لونڈی بنا دیا ہے کہ جب چاہے اور جس وقت چاہے، دو چار رومانس کی باتیں کرے، اس کا ہاتھ پکڑے اور ساتھ لے جائے، اور ساتھ میں اسے کچھ اجرت بھی نہ دے کیونکہ یہ سیکس ورکر تو نہیں ہے، یہ تو اس کا حق ہے کہ جسے وہ بڑی مشکل سے حاصل کر رہی ہے۔ تو یہ مرد نے اسے بتلایا ہے کہ یہ ہیں اصل میں تمہارے حقوق۔ اوہ میرے اللہ، ابھی ان کو اور بھی حقوق چاہییں۔ اب بھی انہیں ناقص العقل نہ کہیں تو کیا کہیں!
No comments:
Post a Comment
THANK YOU