ALL TYPE SHAERY POETRY AND INFORMATION OF ALL WORLD AND MAJOR NEWS
مارکیٹ میں بکتا زہر اور حرام
چار 4 باتوں کا خیال رکھیں
نواز شریپ اور عدالت
ملالہ یوسفزئی. عرف زنانہ یوسفزئی
پہنچی ہوئی قوم
Quraan e pak me sy Duaeen
اورنگزیب عالمگیر
اس نے کہا : " بابا ہمارے کس کام کی ہیں یہ ساری چیزیں ۔ ہم تو فقیر لوگ ہیں تیری بڑی مہربانی ۔ " اورنگزیب نے بڑا زور لگایا لیکن وہ نہیں مانا اور بادشاہ مایوس ہو کے واپس آگیا ۔اور اورنگزیب اپنے تخت پر آ کر بیٹھ گیا جب وہ ایک فرمان جاری کر رہا تھا عین اس وقت کندن بہروپیا اسی طرح منکے پہنے آیا ۔تو شہنشاہ نے کہا : " حضور آپ یہاں کیوں تشریف لائے مجھے حکم دیتے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ۔ " کندن نے کہا ! " نہیں شہنشاہ معظم ! اب یہ ہمارا فرض تھا ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو جناب عالی میں کندن بہروپیا ہوں ۔ میرے پانچ سو روپے مجھے عنایت فرمائیں ۔ " اس نے کہا : " تم وہ ہو ۔کندن نے کہا ہاں وہی ہوں ۔جو آج سے ڈیڑھ برس پہلے آپ سے وعدہ کر کے گیا تھا ۔اورنگزیب نے کہا : " مجھے پانچ سو روپے دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں جب میں نے آپ کو دو پرگنے اور دو قصبے کی معافی دی جب آپ کے نام اتنی زمین کر دی جب میں نے آپ کی سات پشتون کو یہ رعایت دی کہ اس میری ملکیت میں جہاں چاہیں جس طرح چاہیں رہیں ۔ آپ نے اس وقت کیوں انکار کر دیا ؟ یہ پانچ سو روپیہ تو کچھ بھی نہیں ۔اس نے کہا : " حضور بات یہ ہے کہ جن کا روپ دھارا تھا ، ان کی عزت مقصود تھی ۔ وہ سچے لوگ ہیں ہم جھوٹے لوگ ہیں ۔ یہ میں نہیں کر سکتا کہ روپ سچوں کا دھاروں اور پھر بے ایمانی کروں ۔ "
لفظ (4) کی معلومات
حضرت عثمان رضیہ اللہ کا بنک اکاؤنٹ
ﯾﮧ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺣﯿﺮﺕ ﮨﻮ ﮔﯽ ﮐﮧ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﮐﯽ ﻣﯿﻮﻧﺴﭙﻠﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﺟﺎﺋﯿﺪﺍﺩ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ ﮨﮯ۔۔ ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺑﺠﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺑﻞ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ۔۔۔۔۔۔
ﻧﺒﻮﺕ ﮐﮯ ﺗﯿﺮﮨﻮﮞ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﺠﺮﺕ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﻗﻠﺖ ﺗﮭﯽ ۔۔ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﺎ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﮩﻨﮕﮯ ﺩﺍﻣﻮﮞ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮﺗﺎ۔۔ ﺍﺱ ﮐﻨﻮﯾﮟ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ " ﺑﺌﺮِ ﺭﻭﻣﮧ " ﯾﻌﻨﯽ ﺭﻭﻣﮧ ﮐﺎ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﺗﮭﺎ۔۔
ﻭﮨﺎﮞ ﺍﻥ ﺣﺎﻻﺕ ﺳﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺁﮔﺎﮦ ﮐﯿﺎ۔۔ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ " ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﺟﻮ ﯾﮧ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﺧﺮﯾﺪﮮ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﻗﻒ ﮐﺮ ﺩﮮ۔۔۔؟ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﺍﺳﮯ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﭼﺸﻤﮧ ﻋﻄﺎﺀ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ۔۔ "
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍﺱ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﯿﺎ ۔۔ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻣﻨﺎﻓﻊ ﺑﺨﺶ ﺁﻣﺪﻧﯽ ﮐﺎ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ۔۔
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺗﺪﺑﯿﺮ ﮐﯽ ﮐﮧ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ " ﭘﻮﺭﺍ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﻧﮧ ﺳﮩﯽ ۔۔۔ ﺁﺩﮬﺎ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﻣﺠﮭﮯ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮ ﺩﻭ ۔۔۔ ﺁﺩﮬﺎ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﮐﻨﻮﯾﮟ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﻮ ﮔﺎ۔۔ "
ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﺱ ﭘﯿﺸﮑﺶ ﭘﺮ ﻻﻟﭻ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﯿﺎ ۔۔۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﮩﻨﮕﮯ ﺩﺍﻣﻮﮞ ﻓﺮﺧﺖ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔۔۔ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﻨﺎﻓﻊ ﮐﻤﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ۔۔
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺁﺩﮬﺎ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ۔۔۔
ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻏﻨﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻭﮦ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺿﺎ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻭﻗﻒ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﻨﻮﯾﮟ ﺳﮯ ﻣﻔﺖ ﭘﺎﻧﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﮮ ﺩﯼ ۔۔ ﻟﻮﮒ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻏﻨﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺩﻥ ﻣﻔﺖ ﭘﺎﻧﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﺫﺧﯿﺮﮦ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ۔۔ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﮯ ﺩﻥ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺷﺨﺺ ﭘﺎﻧﯽ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﻧﮧ ﺟﺎﺗﺎ۔۔
ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺠﺎﺭﺕ ﻣﺎﻧﺪ ﭘﮍ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﺁﺩﮬﺎ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﺑﮭﯽ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﮐﯽ ﭘﯿﺸﮑﺶ ﮐﺮ ﺩﯼ۔۔
ﺍﺱ ﭘﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻢ ﻭ ﺑﯿﺶ ﭘﯿﻨﺘﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﺩﺭﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﺧﺮﯾﺪ ﮐﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﻗﻒ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔۔
ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﻟﺪﺍﺭ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻏﻨﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﺩﻭﮔﻨﺎ ﻗﯿﻤﺖ ﭘﺮ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﮐﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﺶ ﮐﯽ۔۔
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ " ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﺶ ﮨﮯ۔۔۔ "
ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ " ﻣﯿﮟ ﺗﯿﻦ ﮔﻨﺎ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ۔۔۔ "
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ " ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺌﯽ ﮔﻨﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﺶ ﮨﮯ۔۔۔ "
ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭ ﮔﻨﺎ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ۔۔۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ " ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﺶ ﮨﮯ۔۔۔ "
ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺭﻗﻢ ﺑﮍﮬﺎﺗﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﯾﮩﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ ﺭﮨﮯ۔۔۔
ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ " ﺣﻀﺮﺕ ﺁﺧﺮ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﺱ ﮔﻨﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔۔؟ "
ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ " ﻣﯿﺮﺍ ﺭﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﮑﯽ ﭘﺮ ﺩﺱ ﮔﻨﺎ ﺍﺟﺮ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔۔۔ "
ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﯿﺮﺍﺏ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻏﻨﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺩﻭﺭِ ﺧﻼﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﻨﻮﯾﮟ ﮐﮯ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﮐﮭﺠﻮﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺑﺎﻍ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﻍ ﮐﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺑﮭﺎﻝ ﮨﻮﺋﯽ ۔۔
ﺑﻌﺪ ﺍﺯﺍﮞ ﺁﻝِ ﺳﻌﻮﺩ ﮐﮯ ﻋﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺠﻮﺭ ﮐﮯ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺳﻮ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ۔۔
ﺣﮑﻮﻣﺖِ ﻭﻗﺖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﻍ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﭼﺎﺭﺩﯾﻮﺍﺭﯼ ﺑﻨﻮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺟﮕﮧ ﻣﯿﻮﻧﺴﭙﻠﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ ﮐﺮ ﺩﯼ ۔۔
ﻭﺯﺍﺭﺕِ ﺯﺭﺍﻋﺖ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﮐﮭﺠﻮﺭﯾﮟ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺁﻣﺪﻧﯽ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺑﯿﻨﮏ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﻭﺍﺗﯽ ﺭﮨﯽ ۔۔
ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺍﺱ ﺍﮐﺎﻭﻧﭧ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺭﻗﻢ ﺟﻤﻊ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﮐﮯ ﻣﺮﮐﺰﯼ ﻋﻼﻗﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﺎﻍ ﮐﯽ ﺁﻣﺪﻧﯽ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﺸﺎﺩﮦ ﭘﻼﭦ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﻓﻨﺪﻕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺭﮨﺎﺋﺸﯽ ﮨﻮﭨﻞ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ۔۔
ﺍﺱ ﺭﮨﺎﺋﺸﯽ ﮨﻮﭨﻞ ﺳﮯ ﺳﺎﻻﻧﮧ ﭘﭽﺎﺱ ﻣﻠﯿﻦ ﺭﯾﺎﻝ ﺁﻣﺪﻧﯽ ﻣﺘﻮﻗﻊ ﮨﮯ ۔۔ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺁﺩﮬﺎ ﺣﺼﮧ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﮑﯿﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻔﺎﻟﺖ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻗﯽ ﺁﺩﮬﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺑﯿﻨﮏ ﺍﮐﺎﻭﻧﭧ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﮔﺎ ۔۔
ﺫﻭﺍﻟﻨﻮﺭﯾﻦ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻋﻤﻞ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﻮﺹِ ﻧﯿﺖ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺰﺕ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﻗﺒﻮﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﺮﮐﺖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮐﮧ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺗﮏ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺻﺪﻗﮧ ﺟﺎﺭﯾﮧ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ۔۔
ﯾﮩﯽ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﻨﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﺧﺮﯾﺪ ﻟﺌﮯ۔۔
ﯾﮩﯽ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﺠﺎﺭﺕ ﮐﯽ ۔۔۔
ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﮐﻮ ﻗﺮﺽ ﺩﯾﺎ۔۔۔۔۔ ﺍﭼﮭﺎ ﻗﺮﺽ ۔۔۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﮔﻨﺎ ﺑﮍﮬﺎ ﮐﺮ ﻟﻮﭨﺎﯾﺎ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبحان الله
خدا کی بے آواز لاٹھی
خدا کی بے آواز لاٹھی اور دو سچے واقعات
واقعہ :1
6 جولائی 2012 احمد پور شرقیہ ایک دماغی ابنارمل آدمی، غلام عباس، کو قرآن پاک کے اوراق جلانے کے جھوٹے الزام کے تحت گرفتار کر کے پولیس سٹیشن لایا گیا۔
بعد ازاں، قریبی مسجد کے مولوی صاحب نے مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے اشتعال انگیز اعلان کیا کہ اس آدمی نے توہینِ قرآن کی ہے اور وہ حوالات میں ہے۔ اس پہ گاؤں والے مشتعل ہو کے گھروں سے نکل آئے اور گاؤں سے گزرتی مرکزی لاہور کراچی ہائی وے بلاک کر دی۔ انہوں نے حوالات کے دروازے توڑ کر اس بے گناه دماغی ابنارمل شخص کو حوالات سے نکال کے اس پر پٹرول چھڑک کر اسے آگ لگا دی۔
(یه جلتےغلام عباس کی اصل تصویر ہے ) لگ بھگ دو ہزار کا مقامی مشتعل ہجوم وہاں کھڑا دیکھتا رہا اور جلتے ذنده انسان کو پتھر مارتے رہے جب تک کہ وہ شخص جل کے راکھ نہ ہو گیا۔
واقعہ : 2
25 جون 2017: احمد پور شرقیہ۔
اسی مرکزی لاہور کراچی ہائی وے پہ چالیس ہزار لٹر پٹرول لے کر جاتا ہوا ایک ٹرالر تیزی سے مڑنے کی کوشش میں الٹ گیا۔ لوگوں کو قریبی مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے لیک ہوتے پٹرول کی نوید سنائی گئی اور پٹرول لوٹنے پہ اکسایا گیا۔ بچوں، عورتوں اور مردوں پہ مشتمل ایک بڑا مجمعہ بوتلیں، بالٹیاں اور گھر کے دوسرے برتن لے کے بہتا ہوا پٹرول اکٹھا کرنے کو پہنچ گیا۔ اور پھر جب کسی نے ہتھوڑے کے وار سے آئل ٹینکر کے سوراخ کو بڑا کرنے کی کوشش کی تو پٹرول نے آگ پکڑ لی۔ ٹینکر دھماکے سے پھٹ گیا اور آگ نے وہاں موجود مجمعے کو گھیر لیا۔ 155 سے زائد لوگ عین اس جگہ کے قریب جل کے راکھ ہو گئے جہاں غلام عباس کو پانچ سال پہلےزنده جلایا گیا تھا۔
اب یہ خدا ہی جانتا ہے کہ یہ غلام عباس کا بدلہ تھا یا تقدیر کا کھیل ...لیکن گزارش فقط اتنی ہے کہ کسی کا ظاہر دیکھ کر اس کی آخرت کا فیصلہ نہ کیا کریں ... ایک منٹ میں کسی کو کافر , مرتد , زانی , شرابی قرار دینے والی مسلمان قوم سے اپیل ہے کہ خدا بار بار قرآن میں کہہ رہا ہے کہ خدا بہتر انتقام لینے والا ہے ...
نوکر صحابہ دا
کتے کی تخلیق
نوازشریف اور پانامہ شاعری
ڈھولا پانامہ دیاں رولیاں اچ پا کے
نیازی ساڈی گل نیہوں سن دا.
جے آئی ٹی دے پھائے اچ پھسا کے
تے ہن ساڈا جانوں نیہوں بن دا
نیازی ساڈا جانوں نیہوں بن دا
نیازی ساڈا جانوں نیہوں بن دا
ایناں نوں میں بہت رواواں گا ایہہ کہندا سی
جتھوں تک جانا پیا،جاواں گا میں کہندا سی
ساڈیاں اوہ سر اتے باہواں رکھا کے
تے ہن ساڈا جانوں نیہوں بن دا
نیازی ساڈا جانوں نیہوں بن دا
نیازی ساڈا جانوں نیہوں بن دا
جانو نہیں بن دا. جانو نہیں بن دا.
لوگو سانوں دسو ہویا ساتھوں کی قصور اے
جے آئی ٹی نے کیتا سانوں بہوں مجبور اے
ساڈا پورا ٹبر ذلیل کرا کے
تے ہن ساڈا جانوں نیہوں بن دا
نیازی ساڈا جانوں نیہوں بن دا
نیازی ساڈا جانوں نیہوں بن دا
پل، سڑکاں تے لوکو بساں تسی کھا لو
اٹاں روڑیاں نال بھک نوں مٹا لو
عوام پورے ملک دی ساڈے پچھے لا کے
تے ہن ساڈا جانوں نیہوں بن دا
نیازی ساڈا جانوں نیہوں بن دا
نیازی ساڈا جانوں نیہوں بن دا
جس ویلے ویکھو پیا ہسدا نیازی اے
ساڈے استعیفیاں تے بس اوہ راضی اے
جگہ جگہ سانوں ایہہ زلیل کرا کے
تے ہن ساڈا جانوں نیہوں بن دا
نیازی ساڈا جانوں نیہوں بن دا
نیازی ساڈا جانوں نیہوں بن دا
کیہا جدوں اوہنے سانوں"گو نواز گو" اے
اسیں کیہا نیہوں "جانا رو عمران رو" اے
ہر اک فورم اتے سانوں اوہ روا کے
تے ہن ساڈا جانوں نیہوں بن دا
نیازی ساڈا جانوں نیہوں بن دا
نیازی ساڈا جانوں نیہوں بن دا
عدالتاں اچ اینے سانوں بڑا جے گھسیٹیا
ایہہ نے لوکو چور بڑا ملک ایناں لٹیا
ملک دا بچہ بچہ ساڈے پچھے لاکے
تے ہن ساڈا جانوں نیہوں بن دا
نیازی ساڈا جانوں نیہوں بن دا
نیازی ساڈا جانوں نیہوں بن دا
مفید معلومات
نیوٹن کے قانون جو اس نے نہیں لکھے.
🌚🌚🌚🌚🌚🌚🌚🌚🌚🌚🌚🌚🌚
نیوٹن کے وہ قوانین جو نیوٹن کسی وجہ سے لکھنا بھول گیا
1۔ انتظاری قطاروں کا قانون :
اگر کسی جگہ ایک سے زیادہ انتظاری قطاریں ہونے کی صورت میں آپ ایک قطار چھوڑ کر دوسری میں جا کر کھڑے ہوں تو پہلے والی قطار تیزی سے چلنا شروع ہو جاتی ہے۔
2۔ مکینکی قانون:
کوئی مشین مرمت کرتے ہوئے جب آپ کے ہاتھ تیل یا گریس سے بھر جائیں، تو آپ کی ناک پر فوراً کھجلی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
3۔ ٹیلیفون کا قانون :
جب کبھی بھی رانگ نمبر ڈائل ہو جائے تو کبھی بھی مصروف نہیں ملتا۔ آزمائش شرط ہے
4۔ ورکشاپ کا قانون :
اگر آپ نے ایک سے زیادہ چیزیں *ہاتھ میں اٹھا رکھی ہیں تو ہمیشہ قیمتی اور نازک چیز زمین پر پہلے گرے گی۔
5۔ دفتری قانون :
اگر آپ دفتر دیر سے پہنچنے پر اپنے باس کو " ٹائر پنکچر " ہو جانے کا بہانہ بنا کر مطمئن کر دیں تو اگلے دو تین دن کے اندر لازمی ٹائر پنکچر ہو جاتا ہے
6۔ باتھ روم کا قانون :
جب آپ باتھ روم میں نہانے کے دوران صابن لگا چکے ہوں تو بیٹھک میں ٹیلیفون بجنا شروع ہوجاتا ہے۔
7- دودھ ابالنے کا قانون
دودھ ابالتے وقت آپ چاہے جتنی دیر مرضی کھڑے رہیں دودھ نہیں ابلے گا جیسے ہی ایک آدھ منٹ کے لیئے ادھر ادھر ہوئے دودھ ابل کر باہر آ جائے گا اور چولہے کا ستیا ناس ہو جائے گا
8۔ چائے کا قانون :
دوران کام اگر آپ کا دل گرم گرم چائے پینے کو چاہ رہا ہے اور گرما گرم چائے آپ کی ٹیبل پر آ گئی ہو تو آپ کا باس عین اسی وقت آپ کو بلائے گا یا ٹیلفون کرے گا تا وقتیکہ چائے ٹھنڈی ہو جائے۔
9- امتحانی قانون :
دیانتداری اور محنت سے حل کیے گئے سوال کے نمبر ہمیشہ نقل شدہ جواب سے کم ہی آتے ہیں.
ایک کسان اور چوہا
ایک چوہا کسان کے گھر میں بل بنا کر رہتا تھا، ایک دن چوہے نے دیکھا کہ کسان اور اس کی بیوی ایک تھیلے سے کچھ نکال رہے ہیں،چوہے نے سوچا کہ شاید کچھ کھانے کا سامان ہے-
خوب غور سے دیکھنے پر اس نے پایا کہ وہ ایک چوهےدانی تھی- خطرہ بھانپنے پر اس نے گھر کے پچھواڑے میں جا کر کبوتر کو یہ بات بتائی کہ گھر میں چوهےدانی آ گئی ہے-
کبوتر نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ مجھے کیا؟ مجھے کون سا اس میں پھنسنا ہے؟
مایوس چوہا یہ بات مرغ کو بتانے گیا-
مرغ نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ... جا بھاييے میرا مسئلہ نہیں ہے-
مایوس چوہے نے دیوار میں جا کر بکرے کو یہ بات بتائی ... اور بکرا ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہونے لگا-
اسی رات چوهےدانی میں كھٹاك کی آواز ہوئی جس میں ایک زہریلا سانپ پھنس گیا تھا-
اندھیرے میں اس کی دم کو چوہا سمجھ کر کسان کی بیوی نے اس کو نکالا اور سانپ نے اسے ڈس لیا-
طبیعت بگڑنے پر کسان نے حکیم کو بلوایا، حکیم نے اسے کبوتر کا سوپ پلانے کا مشورہ دیا،
*کبوتر ابھی برتن میں ابل رہا تھا*
خبر سن کر کسان کے کئی رشتہ دار ملنے آ پہنچے جن کے کھانے کے انتظام کیلئے اگلے دن مرغ کو ذبح کیا گیا
کچھ دنوں کے بعد کسان کی بیوی مر گئی ... جنازہ اور موت ضیافت میں بکرا پروسنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ......
چوہا دور جا چکا تھا ... بہت دور ............
اگلی بار کوئی آپ کو اپنے مسئلے بتائے اور آپ کو لگے کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے تو انتظار کیجئیے اور دوبارہ سوچیں .... ہم سب خطرے میں ہیں ....
سماج کا ایک عضو، ایک طبقہ، ایک شہری خطرے میں ہے تو پورا ملک خطرے میں ہے ....
ذات، مذہب اور طبقے کے دائرے سے باہر نكليے-
خود تک محدود مت رہیے- دوسروں کا احساس کیجئیے۔ پڑوس میں لگی آگ آپکے گھر تک بھی پہنچ سکتی ہے
🌞 قرآن مجید کی اہم معلومات.🌞
Phir yoon howa k complete
پھر یوں ہوا کہ دل میں کسی کو بسا لیا
پھر یوں ہوا کہ خواب سجائے تمام عُمر
ﭘﮭﺮ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻧِﮑﻠﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ
ﭘﮭﺮ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻧﮧ ﭘﺎﺋﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻋُﻤﺮ
ﭘﮭﺮ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺁﮔﺌﮯ
ﭘﮭﺮ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺩﮬﻮﮐﮯ ﮨﯽ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻋُﻤﺮ
پھر یوں ہوا کہ دکھ ہمیں محبوب ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ دل سے لگائے تمام عُمر
پھر یوں ہوا کہ اور کسی کے نہ ہو سکے
پھر یوں ہوا کہ وعدے نبھائے تمام عُمر
پھر یوں ہوا کہ بیٹھ گئے راہ میں غیاث
پھر یوں ہوا کہ وہ بھی نہ آئے تمام عُمر
پھر یوں ہوا کہ، وقت کر تیور بدل گئے
پھر یوں ہوا کہ راستے یکسر بدل گئے
پھر یوں ہوا کہ حشر کے سامان ہوگئے
پھر یوں ہوا کہ،،،،،، شہر بیاباں ہوگئے
پھر یوں ہوا کہ،، راحتیں کافور ہوگئیں
پھر یوں ہوا کہ بستیاں بے نور ہوگئیں
پھر یوں ہوا کہ آپ کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاہت نہیں رہی
پھر یوں ہوا کہ کوئی بھی۔ حسرت نہیں رہی
پھر یوں ہوا کہ آرزوئےِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وصل مٹ گئی
پھر یوں ہوا کہ ھجر میں ۔۔۔۔ کلفت نہیں رہی
پھر یوں ہوا کہ لب سے ۔ہنسی چھین لی گئی
پھر یوں ہوا کہ ہنسنے کی ۔۔۔۔ عادت نہیں رہی
پھر یوں ہوا کہ ۔۔۔۔ سوز و گداز و تڑپ نہیں
پھر یوں ہوا کہ درد میں ۔۔۔ لذت نہیں رہی
پھر یوں ہوا کہ پیار فقط ۔۔۔ ایک شب کا تھا
پھر یوں ہوا کہ ان کو ۔۔۔۔ محبت نہیں رہی
پھر یوں ہوا کہ حسن بکا ۔۔۔۔۔۔ شہرِ حوس میں
پھر یوں ہوا کہ ۔۔۔۔ عشق و صداقت نہیں رہی
پھر یوں ہوا کہ آنکھ کا ۔۔۔۔ بادہ نہیں رہا
پھر یوں ہوا کہ پیاس کی ۔۔ شدت نہیں رہی
پھر یوں ہوا کہ ۔۔۔۔۔۔۔ ماند خیالات پڑ گئے
پھر یوں ہوا کہ فکر میں۔۔۔ رفعت نہیں رہی
پھر یوں ہوا کہ ۔۔۔ ان سے بھی لیلائیاں گئیں
پھر یوں ہوا کہ ہم کو بھی وحشت نہیں رہی..
پھر یوں ہوا کہ سو گئے تارے بھی نیم شب...
پھر یوں ہوا کہ دل میں خلش جاگتی رہی ..
...............جوگن یار دی.................
قربانی کا گوشت
*دَردِ کی تحریر*
بابا بابا!
تِین دِن رہ گئے ہیں قربانی والی عید میں۔ ہمیں بھی گوشت ملے گا نا؟
بابا،
ہاں ہاں کیوں نہی بِالکُل ملے گا۔۔
لیکن بابا پچھلی عید پر تو کسی نے بھی ہمیں گوشت نہیں دیا تھا،
اب تو پورا سال ہو گیا ہے گوشت دیکھے ہوئے بھی،
نہیں شازیہ،
اللہ نے ہمیں بھوکا تو نہیں رکھا،
میری پیاری بیٹی،
ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیۓ
حاجی صاحب قربانی کے لئے بڑا جانور لے کر آئے ہیں،
اور مولوی صاحب بھی تو بکرا لے کر آئے ہیں،
ہم غریبوں کے لیے ہی تو قربانی کا گوشت ہوتا ہے،
امیر لوگ تو سارا سال گوشت ہی کھاتے ہیں،
آج عیدالضحٰی پے مولوی صاحب بیان فرما رہے ہیں
کہ قربانی میں غریب مسکین لوگوں کو نہیں بھولنا چاہئے۔۔
ان کے بہت حقوق ہوتے ہیں۔۔
خیر شازیہ کا باپ بھی نماز ادا کر کے گھر پھنچ گیا،
گھنٹہ بھر انتظار کرنے کے بعد شازیہ بولی۔۔
بابا ابھی تک گوشت نہیں آیا،
بڑی بہن رافیہ بولی۔۔ چپ ہو جاٶ شازی بابا کو تنگ نہ کرو۔
وہ چپ چاپ دونوں کی باتیں سنتا رہا اور نظرانداز کرتا رہا۔۔
کافی دیر کے بعد بھی جب کہیں سے گوشت نہیں آیا تو شازیہ کی ماں بولی۔
سنیۓ میں نے تو پیاز ٹماٹر بھی کاٹ دیۓ ہیں۔ لیکن کہیں سے بھی گوشت نہیں آیا،
کہیں بھول تو نہیں گۓ ہماری طرف گوشت بجھوانا۔
آپ خود جا کر مانگ لائیں،
شازیہ کی ماں تمہیں تو پتہ ھے آج تک ہم نےکبھی کسی سے مانگانہیں ،
اللہ کوئ نہ کوئ سبب پیدا کرے گا۔۔
دوپہر گزرنے کے بعد شازیہ کے اسرار پر پہلے حاجی صاحب کے گھر گئے،
اور بولے حاجی صاحب۔ میں آپ کا پڑوسی ہوں کیا قربانی کا گوشت مل سکتا ہے؟
یہ سننا تھا کہ حاجی صاحب کا رنگ لال پیلا ہونے لگا،
اور حقارت سے بولے پتہ نہیں کہاں کہاں سے آ جاتے ہیں گوشت مانگنے،
تڑاخ سے دروازہ بند کر دیا ۔۔
توہین کے احساس سے اسکی آنکھوں میں آنسو گۓ۔۔
اور بھوجل قدموں سے چل پڑا راستے میں مولوی صاحب کے گھر کی طرف قدم اٹھے
اور وہاں بھی وہی دست سوال۔
مولوی صاحب نے گوشت کا سن کر عجیب سی نظروں سے دیکھا اور چلے گۓ۔
تھوڑی دیر بعدد باہر آۓ تو شاپر دے کر جلدی سے اندر چلۓ گۓ۔
جیسے اس نے گوشت مانگ کر گناہ کر دیا ہو۔۔
گھر پہنچ کر دیکھا تو صرف ہڈیاں اور چربی۔۔
خاموشی سے اٹھ کرکمرے میں چلے گئے اور خاموشی سے رونے لگ گئے۔
بیوی آئ اور بولی کوئی بات نہیں۔۔ آپ غمگین نہ ہوں۔
میں چٹنی بنا لیتی ہوں۔۔
تھوڑی دیر بعد شازیہ کمرے میں آئ۔
اور بولی بابا،
ہمیں گوشت نہںں کھانا ۔ میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے ویسے بھی،
یہ سننا تھا کہ آنکھوں سے آنسو گرنے لگے اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے
لیکن رونے والے وہ اکیلے نہیں تھے۔۔
دونوں بچیاں اور بیوی بھی آنسو بہا رہے تھے۔۔
اتنے میں پڑوس والے اکرم کی آواز آئ۔۔
جو سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا۔۔
انور بھائی،
دروازہ کھولو،
دروازہ کھولا تو اکرم نے تین چار کلو گوشت کا شاپر پکڑا دیا،
اور بولا ،
گاٶں سے چھوٹا بھائ لایا ہے۔
اتنا ہم اکیلے نہیں کھا سکتے۔
یہ تم بھی کھا لینا
خوشی اورتشکر کے احساس سے آنکھوں میں آنسو آ گۓ ۔
اور اکرم کے لیۓ دل سے دعا نکلنے لگی۔
گوشت کھا کر ابھی فارغ ھوۓ ہی تھے کہ بہت زور کا طوفان آیا ۔
بارش شروع ہو گئ۔ اسکے ساتھ ہی بجلی چلی گئی۔
دوسرے دن بھی بجلی نہی آئی۔
پتہ کیا تو معلوم ہوا ٹرانسفارمر جل گیا۔
تیسرے دن شازیہ کو لے کرباہر آئے تو دیکھا کہ،
مولوی صاحب اور حاجی صاحب بہت سا گوشت باہر پھینک رہے تھے ۔
جو بجلی نہ ہونےکی وجہ سے خراب ہو چکا تھا۔
اور اس پر کُتے جھپٹ رہے تھے۔
شازیہ بولی،
بابا۔
کیا کُتوں کے لیۓ قربانی کی تھی؟
وہ شازیہ کا چہرہ دیکھتے رہ گیے ۔
اور مولوی اور حاجی صاحب نے یہ سُن کر گردن جھکا لی۔
خدرا احساس کریں غریب اور مسکین لوگوں کا۔
یہ صِرف تحریر ھی نہیں،
اپنے آس پاس خود دار مساکین کی ضرورتوں سے ہمہ وقت آگاہ رھنے کی درخواست بھی ھے۔ دعائوں کا منتظر ۔۔۔ عبدالجلیل کھوسہ