یادوں کی نگری ۔۔کیہں پھتریلی نوک دار سنگر یزوں کی طرح لہو لہان کردینے والی ..۔سوچوں کو پنجرے میں بند کرتی ھوی کہ پھڑپھڑانے کی بھی سکت چھین لے۔۔۔ان لمحوں کے لیے جو آہ تھے کہ جن میں جینا بھی کھٹن تر رھا ھو اور ان سے پیچھا چھڑا کے آگے بڑھنا بھی جوکھم۔۔۔ذہہن ان سے اگر آنکھ چراے تو دل بغاوت پہ اتر آتا ھے گر دل کو سرزنش کریں حیلے بہانوں میں الجھائیں تو دماغ مٹھی میں بند ریت کی طرح ھاتھوں سے پھسل پھسل جاتا ھے۔۔۔۔روح میں سرایت کی ھوئی یادیں ذندگی کو گھسٹ گھسٹ کر جینے پر مجبور ھی تو کرتی ھیں ۔۔۔چاھے وہ اندھیری کال کوٹھڑی میں قیدو بند کی سزا کاٹتے مجرم کی طرح زندگی کی نوید کھونے جیسی ھوں یا خوشیوں کے ہنڈولے میں ڈولتے بے فکر بچپن کی کن من برستی بارش کے قطروں میں بھیگنے کی مانند۔۔۔
یہ یادیں بھلے وقت کی بے رحم دھول میں دفن ھو جائیں، دب جائیں ایک چھوٹی سی، حوالے کی چنگاری ،کسی پہچان کی پھونک اس دھول کو ایسے اڑا دیتی ھے جیسے صحرا میں صدیوں سے بنجر زمین پر کسی سوکھے برگد کے شجر کو باران رحمت دنوں میں ہرالی بخش دے۔۔۔۔
چاھے یادوں کی حنوت شدہ لاش پہ ہر وقت ماتم نہیں کیا جا سکتا مگر وہ نفس جو یادوں کی امربیل کے جال سے لمحہ لمحہ خزاں رسیدہ ھو چکا ھو اسکے لیے نہ تو صبر کادگر ھوتا ھے نہ سکون ۔۔۔
جن کی قسمت میں خدا کا فیصلہ ھی یوں قطرہ قطرہ سانس لینا ۔ ۔۔مڑ مڑ کے پیچھے دیکھنا اور ان یادوں کی چکر پھریوں میں الجھنا سزا کے طور پہ لکھا گیا ھو ۔۔۔وہ کیونکر اس گورکھ دھندہ سے نجات پاے ۔۔؟؟؟ کیسے سکھ کی چھاؤں میں پل بھر کا دم پاے ۔۔۔اگر کوئی اپنے ھی ھاتھوں معافی کا ململ بھی تار تار کر بیٹھا ھو تو ۔۔ اسکے پاس۔سواے جسم کے پنچھی کا روح سے پرواز کر جانے کے انتظار کی امید کے سوا اور کوئی زاد سفر نہیں بچتا۔۔۔۔( از قلم اقدس مرزا )
بہار رت میں اجاڑ راستے
تکا کرو گے تو رو پڑو گے
کسی سے ملنے کو جب بھی محسن
سجا کرو گے تو رو پڑو گے
تمہارے وعدوں نے یار مجھ کو
تباہ کیا ہے کچھ اس طرح سے
کہ زندگی میں جو پھر کسی سے
دغا کرو گے تو رو پڑو گے
میں جانتا ہوں میری محبت
اجاڑ دے گی تمہیں بھی ایسے
کہ چاند راتوں میں اب کسی سے
ملا کرو گے تو رو پڑو گے
برستی بارش میں یاد رکھنا
تمہیں ستائیں گی میری یادیں
کسی ولی کے مزار پر جب
دعا کرو گے تو رو پڑو گے
No comments:
Post a Comment
THANK YOU