لبرل اور سیکیولر اشرافیہ کیلئے ایک تازیانہ ---
18 سالہ دانیال کے ایک انکار نے اسلام آباد کی اشرافیہ کو حیران نہیں بلکہ پریشان کردیا۔ انکار کا یہ واقعہ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے ڈراما ہال میں 6 نومبر 2002 ء کو پیش آیا جہاں وفاقی دارالحکو مت کے ایک معروف انگریزی میڈیم اسکول کی تقریب انعامات جاری تھی ۔۔۔ رمضان المبارک کے باعث یہ تقریب صبح ۱۰ بجے سے 12 بجے کے درمیان منعقد کی گئی اوراتوار کا دن ہونے کے باعث ڈراما ہال طلباءوطالبات سے بھرا ہوا تھا، والدین میں شہر کے لوگ شامل تھے۔
اس تقریب پر مغربی ماحول اورمغربی موسیقی غالب تھی.... اس دوران اسکول کی طالبات نے جنید جمشید کے ایک پرانے گیت پر رقص پیش کیا ۔۔۔ یہ گیت ایک سانولی سلونی کے بارے میں تھا جو شہر کے لڑکوں کو اپنا دیوانہ بنالیتی ہے، ادھر طالبات نے اس گیت پر دیوانہ وار رقص کیا۔
رقص کے بعد اسٹیج سے اولیول اور اے لیول کے امتحانات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلباءوطالبات کے نام پکارے جانے لگے، گولڈ میڈل حاصل کرنے والی طالبات بعض اسکارف اور برقعے میں ملبوس تھیں، ایک طالب علم ایسا بھی تھا جس کے چہرے پر نئی نئی ڈاڑھی آئی تھی اور جب پرنسپل صاحبہ نے اس کے گلے میں گولڈ میڈل ڈال کراس کے ساتھ ہاتھ ملانا چاہا تو دبلے پتلے طالب علم نے نظریں جھکا کراپنا ہاتھ کھینچ لیا، پرنسپل صاحبہ نے پوچھا کہ کیا تم ہاتھ نہیں ملانا چاہتے؟ طالب علم نے نفی میں سرہلایا اور اسٹیج سے نیچے اترآیا-
پھر دانیال کا نام پکارا گیا، جو اے لیول مکمل کرنے کے بعد ایک امریکی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے اور صرف گولڈ میڈل وصول کرنے کے لئے اسے پرانے اسکول کی تقریب میں بلایا گیاتھا-
وہ گولڈ میڈل وصول کرنے کی بجائے پرنسپل صاحبہ کی طرف نہیں گیا بلکہ ڈائس پرجاکر کھڑا ہوا اورمائیک تھام کر کہنے لگا کہ وہ اسکول کی انتظامیہ کا بہت شکر گزار ہے کہ اسے گولڈ میدل کے لئے نامزد کیا گیا، لیکن اسے افسوس ہے کہ اس تقریب میں طالبات نے رمضان المبارک کے تقدس کا خیال نہیں کیا اورنہایت واہیات گیت پر رقص کیا۔ اس نے کہا کہ مسلمانوں کے ملک میں رمضان المبارک کے تقدس کی پامالی کے خلاف بطوراحتجاج وہ گولڈ میڈل وصول نہیں کرے گا-
یہ کہہ کروہ اسٹیج سے اتر آیا اور ہال میں ہڑبونگ مچ گئی۔ کچھ والدین اورطلباء تالیاں بجا کر دانیال کی حمایت کرر تھے اور کچھ چیخ چیخ کر گیٹ آوٹ طالبان، گیٹ آوٹ طالبان کی آوازیں لگارہے تھے ، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مخالفین حاوی ہیں کیونکہ وہ بہت زیادہ شور کرر تھے، لیکن یہ کھلبلی وفاقی دارالحکومت کی اشرافیہ میں ایک اور واضح تقسیم کا پتہ دے رہی تھی، یہ تقسیم لبرل عناصراور بنیاد پرست اسلام پسندوں کے درمیان تھی۔
پرنسپل صاحبہ نےپھر خود مائیک سنبھال کر صورت حال پر قابو پایا اور تھوڑی دیر کے بعد ہوشیاری سے ایک لبرل خاتون دانشور کو اسٹیج پر بلایا جنہوں نے اپنی گرجدارآواز میں دانیال کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کہ تم نے جو کچھ کیا وہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی تعلیمات کے خلاف تھا، کیونکہ بانی پاکستان رواداری کے علمبردار تھے۔
پچھلی نشستوں پر براجمان ایک اسکارف والی طالبہ بولی کہ بانی پاکستان نے یہ کب کہا تھا کہ مسلمان بچیاں رمضان میں اپنے والدین کے سامنے سانولی سلونی محبوبہ بن کر ڈانس کریں؟
ایک دفعہ پھر ہال میں شو روغل بلند ہوا اور اس دفعہ بنیاد پرست حاوی تھے، لہٰذا پرنسپل صاحبہ نے مائیک سنبھالا اورکہا کہ طالبا ت کے رقص سے اگر کسی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو وہ معذرت خواہ ہیں۔
اس واقعے نے اسلام آبا د میں امریکی سفارت خانے کو بہت کچھ سوچنے پر مجبورکردیا، سفارت خانے نے فوری طورپر ایک ماہر تعلیم کی خدمات حاصل کیں اور اسے کہا گیا کہ اسلام آباد کے پانچ معروف انگریزی میڈیم اسکولوں میں اولیول اور اے لیول کے ایک سو طلباءوطالبات سے امریکی پالیسیوں اور طالبان اور اسلام کے بارے میں رائے معلوم کریں- سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک عام گناہ گار مسلمان بھی شعائراسلامی کی توہین برداشت نہیں کرتا اوراس کے تحفظ کیلئے وہ ہرحد عبور کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ کے ایک ہونہار طالب علم محترم صمد خرم جنہوں نے 18 جون 2002 کو نیشنل آرٹ گیلری اسلام آباد میں منعقدہ تقریب تقسیم اکیڈمک ایکسلینس ایوارڈ میں مہمان خصوصی امریکی سفیر اینی پیٹرسن (Anne Patterson) سے احتجاجاً ایوارڈ وصول کرنے سے انکار کیا، اور ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ امریکا صدر
پرویزمشرف کی حمایت کرتا ہے جو غیر آئینی صدراور پاکستان کے عدالتی نظام کو تباہ وبرباد کررہا ہے ۔ مزید برآں امریکا، ڈرون حملوں کے ذریعہ وزیرستان بالخصوص مہمند ایجنسی پر بمباری کر رہا ہے جس سے سینکڑوں معصوم اور بے گناہ افراد شہید ہوتے ہیں، لہذا بحیثیت پاکستانی آپ سے ایوارڈ لینا میں اپنی ملی غیرت کے منافی سمجھتا ہوں۔
پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے سالانہ کنونشن کے موقع پر ایل ایل بی کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے محب وطن طالب علم محترم محمد شاہد جنہوں نے 11 اکتوبر 2003 کو مہمان خصوصی گورنر پنجاب (سلمان تاثیر ) چانسلر پنجاب یونیورسٹی سے احتجاجا گولڈ میدل لینے سے انکار کیا اورکہا کہ آپ اسلام اور پاکستان کے مفادات کے خلاف بیانات دیتے رہتے ہیں۔ نیز آپ نے مئی 2002 کو کراچی کے شرمناک واقعات کی کوئی مذمت نہیں کی لہٰذا میں آپ سے ایوارڈ لینا ا پنےضمیر کے خلاف سمجھتا ہوں۔
او ایف پی گرلز کالج اسلام آباد کی اے لیول کے امتحان میں تمام مضامین میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والی غیور طالبہ محترمہ اسما وحید جنہوں نے 22 جنوری 2010 کو کالج میں امتحانات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والی طالبات کے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں مہمان خصوصی، ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما اورسمندرپار پاکستانیوں کے وفاقی وزیر(ڈاکٹرفاروق ستار) سے احتجاجا سرٹیفکیٹ وصول کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ آپ کا شمار صدر پرویزمشرف کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے جس نے کئی بے گناہ پاکستانیوں کو بھاری ڈالروں کے عوض امریکا کے حوالے کیا۔ اس میں ایک حافظہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی شامل ہے، اس جرم میں آپ بھی برابر کے شریک ہیں، لہٰذا آپ سے ایوارڈ وصول کرنا میں اپنی ہتک محسوس کرتی ہوں۔
دی یونیورسٹی آف فیصل آباد سے ٹیکسٹائل انجینئرنگ میں تیسری پوزیشن حا صل کرنے والے نیک بخت طالبعلم صاحبزادہ عطاررسول مہاروی جنہوں نے 12 نومبر 2003 کو یونیورسٹی کے سالانہ کانووکیشن میں مہمان خصوصی گورنرپنجاب سلمان تاثیر سے احتجاجا ًبرونزمیڈل وصول کرنے سے انکارکیا اورحقارت سے کہا کہ آپ نہ صرف گستاخان رسول کی سرپرستی کرتے ہیں بلکہ توہین رسالت ایکٹ ۲۳۲C کو کالا قانون اور اسے ختم کرنے کے بیانا ت بھی جاری کرتے ہیں، اس طرح آپ بذات خود توہین رسالت کے مرتکب ہوئے ہیں، لہٰذا آپ سے میڈل وصول کرنا میں گناہ سمجھتا ہوں۔
اسلام اور پاکستان کی سرحدوں کے ان سچے محافظوں کو جب میں دیکھتا ہوں تو اقبال کی زبان میں سوچتا ہوں کہ :
” ایسی چنگاری بھی یارب ، اپنی خاکستر میں تھی!“
دینی غیرت وحمیت کا یہ مظاہرہ اللہ کا خوف و خشیت رکھنے والے والدین کی بدولت ہی ممکن ہو تا ہے ۔ ان والدین کو سلام۔
غیرت بڑی چیز جہانِ تگ ودو میں ---- پہناتی درویش کو تاج سردارا
منقول۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment
THANK YOU