*باصلاحیت علما کی قدر کیجیے پھر نتیجہ دیکھیے*
سلام مسنون
اللہ اکبر اللہ اکبر ۔۔۔۔مغرب کی اذان ہورہی تھی-
اذان دینے والے کی آواز بہت دل نشیں تھی- نہ چاہتے ہوئے بھی میرے قدم مسجد کی جانب بڑھنے لگے -
مسجد میں داخل ہوا تو حیران رہ گیا- مسجد جمعہ کی نماز کا منظر پیش کررہی تھی ۔۔۔۔۔
نماز ادا کی تو امام صاحب کی قراءت نے سماں باندھ دیا، خود میں بھی رو دیا -
کچھ ہی دیر میں، میں نے فیصلہ کر لیا کہ امام صاحب کو میں اپنی مسجد میں لے کر جاؤں گا ؛ کیونکہ جب امام اچھا ہو ، اس کی قراءت بھی اچھی ہو، تو مسجدیں آباد ہوتی ہیں -
نماز کے بعد امام صاحب سے مصافحہ کیا، نمبر لیا- اسی دوران میری ملاقات مسجد کے صدر فہیم صاحب سے ہوئی- میری پرانی شناسائی تھی- میں نے اپنے ارادے سے انہیں آگاہ کیا تو وہ مسکرا پڑے -
کہنے لگے: "آپ امام صاحب سے بات کر لیجیے" -
میں نے وقت ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اسی وقت امام صاحب کے پاس پہنچ گیا اور ان سے اپنے مقصد کی بات کی کہ میری بات سُن کر وہ بھی مسکرا دیے -
میں ابھی تک اس مسکرانے کی وجہ نہیں جان پا رہا تھا-
میں نے امام صاحب سے کہا: "امام صاحب! ہم آپ کو یہاں سے اچھی تنخواہ دیں گے-یہاں سے بہتر سہولیات فراہم کریں گے"-
"آپ کو معلوم ہے کہ یہاں میری تنخواہ کیا ہے اور سہولیات کیا میسر ہیں" ؟ امام صاحب نے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا -
"معلوم تو نہیں لیکن یہاں سے بہتر ہوگی"-
اچھا! امام صاحب نے کہا:
"میری تنخواہ اس وقت یہاں 35 ہزار روپے ہے اور مسجد انتظامیہ نے مجھے جو رہائش دی ہوئی ہے وہ شاندار لگژری اپارٹمنٹ ہے"-امام صاحب نے مسجد سے متصل اپنے گھر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا-
بالکنی سے ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ گھر کس قدر شاندار ہوگا -
میں حیران رہ گیا، امام صاحب بھی مسکرا دیے -
واپس جاتے ہوئے میں مسجد کے صدر فہیم صاحب سے ملا اور ان سے پوچھا: "کیا آپ امام صاحب کو 35 ہزار تنخواہ دیتے ہیں"؟
فہیم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا:
"جی بالکل! ہم امام صاحب کو 35 ہزار روپے تنخواہ دیتے ہیں"- "اتنی زیادہ تنخواہ، جب کہ امام کی تنخواہ کی تو 7 سے 10 ہزار روپے تک حد ہے - اتنی زبردست تنخواہ اور اتنی شاندار رہائش؟ آپ عادتیں بگاڑ رہے ہیں ان مولویوں کی"- میں نے کچھ زچ ہوتے ہوئے کہا -
فہیم صاحب اب باقاعدہ ہنس دیے (یعنی انگور کھٹے ہیں) -
فاروقی صاحب! "یہ اس لیے کہ آپ جیسی انتظامیہ کے لوگ انہیں اپنی مساجد میں نہ لے جا سکیں" -
ایک لمحے کے لیے تو میں جھینپ گیا -
فاروقی صاحب! " *امام جتنا زیادہ اچھا ہو گا، مسجد اتنی آباد رہےگی - جتنا قابل خطیب ہو گا، علاقے کے لوگ اتنے زیادہ با شعور ہوں گے* ہم اپنے با صلاحیت علما کی قدر نہیں کرتے، بلکہ استیصال کی کوشش کرتے ہیں - ہم ایک مووی میکر ، فلم میکر، ڈیزائنر کو تو اچھا معاوضہ دینے کو تیار ہیں لیکن ایک مذہبی رائیٹر سے فی سبیل اللہ کام کرانا چاہتے ہیں - ایک ٹھیکیدار کو تو مسجد و مدرسے کی تعمیر کے لیے لاکھوں دینے کو تیار ہیں لیکن پوری قوم کی تعمیر کرنے والے امام ،معلم کو صرف 7 ہزار روپے دیتے ہوئے دل دکھتا ہے -
دنیا بھر میں پروفیشنل لوگوں کی قدر کی جاتی ہے -ہم اپنے لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں -
کیا ایک امام کی ضروریات ایک مزدور سے بھی کم ہے ؟
مزدور کی ماہانہ انکم بھی 40 ہزار ہوتی ہے - ایک مستری آج بھی 40 سے 50 ہزار ماہانہ کماتا ہے -
کیا ایک امام ، یا مدرسے کا استاد اچھے گھر کی خواہش نہیں کر سکتا ؟
آپ کی مسجد کی ماہانہ آمدنی 70 ہزار روپے ہے - ایک اچھا خطیب و امام رکھ لیں، چندہ ڈبل ہو جائے گا- کیا آپ کو امام و خطیب کی تنخواہ نکالنے میں کوئی دقت ہو گی؟
نہیں نا ! لیکن نہ جانے ہم خود تو جہاں نوکریاں کرتے ہیں، وہاں سے ستر ہزار سے زائد تنخواہ لیتے ہیں، لیکن امام اور مدرسے کے استاد کو 7 ہزار تنخواہ میں اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں -
فاروقی صاحب ! آپ ایک ملٹی نیشنل کمپنی سے وابستہ ہیں- خود بتائیے ! آپ کے یہاں فن کے ماہرین کی قدر کیسے کی جاتی ہے ؟ ان کو کیسے سپورٹ کیا جاتا ہے ؟
او ر سنیے دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کو اسلام کے منافی پروپیگنڈہ کرنے کے عوض کروڑوں ڈالر فراہم کیے جاتے ہیں ۔۔۔۔ اور اس فنڈ کے لیے وہ دنیا بھر میں میوزک کنسرٹ کرتے ہیں اور اس کے جو پیسے آتے ہیں، وہ ان اسلامی ممالک میں موجود این جی اوز کو دے دیے جاتے ہیں- وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ان این جی اوز کو مرنے نہیں دیتے، بلکہ زندہ رکھتے ہیں -
جب کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے باصلاحیت لوگوں کو جینے نہیں دیتے -
آپ اپنی مسجد کے لیے ایک اچھے خطیب و امام کو تلاش کیجیے ! یقین جانیے- آپ اتنا اچھا پیکیج دیں گے تو امام صاحب آپ کے پاس سے کہیں نہیں جائیں گے- اپنے اہل علم اور باصلاحیت لوگوں کی قدر کیجیے، انہیں ضائع مت کیجیے -
فہیم صا حب کی بات میں وزن تھا -
اب میں بھی ان کی پوری بات سمجھ گیا تھا -
No comments:
Post a Comment
THANK YOU