(جھنگ بازار کی مائی جھنڈی)
میں اتنی دنیا پھری پر جھنگ بازار کی مائی جھنڈی کے سوا کوئی ایسا نہیں ملا جو ٹھوک بجا کر کہتا ہو کہ اسنے اللہ کو دیکھا ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ مائی جھنڈی کون تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کافر، پاگل، جاہل یا پھر کوئی مجذوب۔ پر میں نے اسے بڑے یقین سے، بار بار کہتے سنا ہے کہ اسنے اللہ کو دیکھا ہے۔ وہ کہتی
"میں نے اللہ کو دیکھا۔ اللہ نے مجھے دیکھا اور وہ ہنس پڑا"
وہ پرانا دور تھا۔ لوگوں کا علم کم پر دل بہت بڑا تھا۔ اتنا بڑا کہ کیا خبر اس میں واقعی اللہ پاک رہتا بھی ہو۔ ان کا دل اتنا بڑا تھا کہ مولوی صاحب کی بڑبڑاہٹوں کے باوجود محلے کے لوگ مائی جھنڈی کو قبول کئے ہوئے تھے۔ بھلے ان میں سے شائید سبھی یہ سمجھتے ہوں کہ مائی سٹھیا گئی ہے،بھلے ان میں سے چند ایک کو شک بھی گذرتا ہو کہ کہیں مائی کے یہ جملے کفر کی زد میں تو نہیں آ جاتے مگر پھر بھی ان کا دل نہیں مانتا تھا کہ اللہ پاک کا نام اتنی محبت سے لینے والے کو دل
میں بھی برا جان لیں۔
میں بھی برا جان لیں۔
جھنگ بازار میں ایک پرانے مندر کے احاطے کے بیچوں بیچ برگد کا ایک درخت تھا جس کے قریب بہت سی جھاڑیاں بھی تھیں۔ شائید انہی جھاڑیوں کے قریب بیٹھنے کی وجہ سے اسے مائی جھنڈی کہا جاتا تھا۔ مائی صبح تڑکے برگد کے درخت تلے آن بیٹھتی جہاں اسکے بیٹے کا کولہو تھا اور سارا دن سرگوشیوں میں بیل سے باتیں کئے جاتی۔ ہم نے کئی بار کان لگا کرسننے کی کوشش بھی کی کہ وہ کیا بولتی ہے پر کبھی سمجھ نہیں پائے۔ اس سے پوچھتے تو کہتی کہ بیل کو سمجھاتی ہوں، حوصلہ دیتی ہوں۔ بیچارا بڑا اکیلا ہے۔ میں باتیں کرتی رہوں تو بیل تیز چلتا ہے، گھبراتا نہیں ہے۔ ہمارے پاس اس کی بات کو جانچنے کا کوئی زریعہ نہیں تھا کہ ہم نے اسے ہمیشہ وہیں بیٹھے بیلوں سے باتیں کرتے ہی سنا۔ وہ اپنے اس کام کو بڑی لگن اور بڑی ذمہ داری سے کرتی تھی۔ کئی بار تو بخار میں تپتی، سردی سےٹھٹھرتی، پاگلوں کی طرح کانپتی رہتی مگر اس موڑھے سے نہ اٹھتی۔ اسکے بیٹے بہو نے بڑی بار اسے محبت سے، تنگ آ کر، غصے سے سمجھانے کی کوشش کی کہ دھندے کی جگہ چھوڑ وہ گھر میں آرام کرے پر وہ کسی کی نہ سنتی اور ہر صبح بڑے التزام سے وہاں پہنچ جاتی۔
بیلوں کے ساتھ ہر آنے والے گاہک سے بات کرنا بھی نہ بھولتی۔ وہ ہر ایک سے کچھ نہ کچھ ضرور کہتی۔ کوئی دعا، کوئی سوال، کوئی چبھتا ہوا جملہ۔ لگتا تھا جیسے بیلوں کی طرح اسکا گاہکوں سے بات کرنا بھی ضروری ہو۔ گاہکوں کا حوصلہ بڑھانے کیلئے۔ جیسے وہ گاہکوں سے باتیں کرتی رہے گی تو اسکے بیٹے کا دھندہ زیادہ چلے گا۔
اسکے بیٹے اور بہو نے اب اسکے ساتھ سر کھپانا چھوڑ دیاتھا۔ وہ دونوں محنتی سے لوگ تھے۔ برگد کے نیچے کولہو میں سارا دن بیل گھومتا تھا اور وہ بوریوں سے الجھے رہتے۔ انہیں گاہکوں کی فکر تھی، آنے والے موسموں کی فکر تھی، ان بچوں کے بیاہ کی فکر تھی جنہیں ابھی ٹھیک سے اپنی ناک صاف کرنی بھی نہیں آتی تھی، رات کی روٹی کھاتے تو صبح کے ناشتے کی فکر تھی۔ بس انہیں فکر نہیں تھی تو اپنے بیل کی فکر نہیں تھی۔ میں نے اسے کبھی بیل کو مارتے یا زبردستی چلاتے نہیں دیکھا کہ وہ تو مائی جھنڈی کی سرگوشیوں پر تیز چلنے لگتا تھا۔
نانی کہتی تھیں کہ وہ پہنچی ہوئی ہے اور گھر میں اگر کوئی اچھی چیز بناتیں تو بڑے التزام سے چھوٹی پلیٹ میں رکھ کر اسے صاف کپڑے سے ڈھک کر مجھے دیتیں تاکہ میں انہیں دے آوں۔ مائی جھنڈی بھی جیسے اس کی عادی ہو گئی تھی میرے ہاتھ میں پلیٹ دور سے دیکھ کر نعرہ لگاتیں کہ "دیکھیں آج میرے اللہ پاک نے میرے لئے کیا بھیجا ہے"۔ شروع شروع میں میں چڑ جاتی اور تلملا کر کہتی کہ "یہ نانی نے بھیجا ہے۔ صفیہ خاتون جو چوبارے والے گھر میں رہتی ہیں۔ " اور مائی جھنڈی مسکراتی "ہاں ہاں کیوں نہیں۔ پربھلا صفیہ خاتون کو کس نے بھیجا ہے؟" میں جھنجھلا جاتی۔ بھلا یہ کیسا سوال تھا؟ تب مجھے لگتا تھا جیسے مائی جھنڈی مجھے بچی سمجھ کر میرا مذاق اڑانے کی کوشش کرتی تھی مگر پھر میں نے دیکھا کہ اسکی تو ہر بات ہی اللہ سے شروع ہوتی تھی۔ ہوا چلتی تو شکر کرتی کہ "میرے اللہ نے کیا ٹھنڈی ہوا چلائی ہے"۔ اسکی بہو غصے میں آ کر اسے کوسنے دیتی تو کہتی "اللہ پاک آج مجھ سے ناراض ہے"۔ بیمار پڑ جاتی تو کہتی "اللہ کی چٹھی آئی ہے کہ مائی جھنڈی ہمیں بھول تو نہیں گئی"۔ چڑیا گاتی تو کہتی "ثبحان اللہ"۔ گدھا بولتا تو اسکی طرف مسکرا کر دیکھتی اور کہتی " تیرے سا خوش قسمت کون ہو گا بھلا جس کا ذکر خود اللہ نے اپنی پاک کتاب میں کیا ہے"۔
مائی جھنڈی اتنا اللہ اللہ کرتی کہ الجھن ہونے لگتی۔ میں تو اس گھر سے تھی جس میں اللہ کی کتاب کو بھی زریں غلاف میں لپیٹ کر الماری کے سب سے اونچی خانے میں رکھی رحل میں رکھا جاتا تھا۔ ہمارا اللہ بہت بڑا تھا، بہت زبردست۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے کوئی بہت بڑا شہنشاہ ہو پر مائی جھنڈی کے قریب آ کر جیسے اللہ ایک کھلنڈرے دوست میں بدل جاتا تھا جو اسے دیکھ کر مسکراتا تھا، اسکے ساتھ کھیلنے کو مچلتا تھا، اونچے درختوں پر لگی کچی امبیاں توڑنے سے نہیں گھبراتا تھا۔ ہمارا اللہ تو پورے جہان کا مالک تھا جسے پوری کائنات کا نظم و نسق چلانا ہوتا تھا اور مائی جھنڈی کے اللہ کو تو جیسے کوئی دوسرا کام ہی نہیں تھا۔ وہ تو بس اگر ساری دنیا کی کلیں گھما رہا تھا تو صرف اس لئے کہ مائی جھنڈی کہ چہرے پر مسکراہٹ لے آئے۔ ہمارا اللہ مائی جھنڈی کے اللہ سے بہت جدا تھا اسی لئے مجھے ہمیشہ مائی جھنڈی کے قریب جانے سے الجھن ہوتی۔ پر نانی جب بھی کوئی کھانے کی چیز دیتیں تو مجھے جانا ہی پڑتا۔ اسکی دعائیں سننی پڑتیں۔ اسکا جھریوں زدہ ہاتھ اپنے سر پر پھروانا پڑتا۔ ہاں البتہ مزے کی بات یہ تھی کہ وہ ہمیشہ مجھے اپنے کھانے میں شریک بھی کر لیتی۔ اور یوں میں گھر میں تو اپنا حصہ کھاتی ہی مگر مائی جھنڈی کے ساتھ بھی خوب مزے سے کھاتی۔
مائی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا پر کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ وہ بس اتنا کہ کر خاموش ہو جاتی کہ "یہ بات بس میں جانوں یا پھر میرا اللہ جانے"۔ اور کہتی بھی بڑے عجیب انداز میں۔ جب وہ "میں جانوں" کہتی تو انگلی سے آسمان کی طرف انگلی اٹھاتی اور "میرا اللہ جانے" کہتی تو انگلی اپنے دل پر رکھ لیتی۔ اور ایسا کرتے ہوئے اسکے آنکھیں یوں جمی رہیتیں جیسے کسی غیر مرئی شئے کو تکتی ہوں۔ شروع میں تو لوگوں نے اسے ایک اتفاق ہی سمجھا اور کچھ نے شائید اسکی توجہ دلانے کی کوشش بھی کی مگر وہ ہمیشہ ایسے ہی کرتی رہی اور اب اگر میں اسے سوچنے جاوں تودل میں ایک پھانس سی پڑ جاتی ہے کہ نجانے کیوں وہ جانتے بوجھتے ایسا کرتی تھی۔
میں ہمیشہ مائی سے چڑتی ہی رہی۔ کوشش کرتی کہ میں اسکی بے سروپا باتوں پر زیادہ نہ سوچوں مگر ایک دن میرے کان کھڑے ہو گئے جب وہ میری خالہ سے بات کر رہی تھی۔ خالہ نئی نئی یونیورسٹی گئی تھیں اور فسلفہ پڑھتی تھیں اسلئے سارا دن علمی بحثوں میں الجھنا ان کا شوق تھا۔ اس دن انہوں نے بڑی تحقیر کے انداز میں مائی جھنڈی سے پوچھا "مائی تجھ میں اور تیرے اس بیل میں بھلا کیا فرق ہے"۔
"فرق تو ہے بیٹا۔ ہیں تو دونوں اللہ کی مخلوق پر فرق تو ہے۔ فرق ہماری ٹانگوں، دماغ یا پھر بولنے کا نہیں بلکہ کسی اور شئے کا ہے۔ دنیا دیکھنے کیلئے جانوروں کو شیشے کا ٹکڑا ملا ہے اور ہمیں عدسہ ملا ہے۔ تو بھی سوچتی ہو گی کہ بھلا شیشے کے ٹکڑے اور عدسے میں کیا فرق ہے؟ مائی نے بھی کہاں کا ٹکڑا کہاں لگا دیا ہے پر فرق ہم میں اتنا ہی ہے۔
شیشے کے ٹکڑے سے دنیا دیکھو تو کیا ہوتا ہے؟ کچھ بھی نہیں بس منظر تھوڑا دھندلا ہو جاتا ہے۔ شیشہ رنگدار ہو تو عجیب سے رنگ بھر جاتے ہیں اور اگر دنیا کا سب سے شفاف شیشہ بھی مل جائے تو بس منظر کو ہوبہو ویسا دکھا دیتا ہے جیسے کہ وہ ہے۔ پر میرے اللہ سوہنے نے تو کہ دیا ہے کہ دنیا دھوکہ ہے پھر اسے کھلی آنکھوں سے دیکھ بھی لو تو کیا ملے گا؟ جانور شیشے کے اس ٹکڑے سے دنیا دیکھتے ہیں اور مٹی میں مل کر مٹی ہو جاتے ہیں۔ دھوکے میں مل کر خود بھی دھوکہ ہو جاتے ہیں۔
پر انسان کی بات دوسری ہے۔ انسان کو دیکھنے کے واسطے شیشہ نہیں طرح طرح کے عدسے ملے ہیں۔ ہر عدسہ مختلف ہے۔ کوئی چیزوں کو چھوٹا کر کے دکھاتا ہے، کوئی دور کر دیتا ہے، کوئی الٹا کر دیتا ہے کوئی مکھی کو اتنا بڑا کر کے دکھاتا ہے کہ وہ ہاتھی جیسی لگنے لگے۔ عدسہ ہمیں دنیا نہیں دکھاتا بلکہ عکس دکھاتا ہے۔ عکس جو ہمیں رلاتے ہیں، ہنساتے ہیں، غصہ دلاتے ہیں۔ دنیا دھوکہ ہے پر عکس سچا ہے کہ وہ ہمارے ذہن میں بنتا ہے۔ اللہ نے ہم پر بڑی مہربانی کی جو ہمیں یہ نظر دی ہے اور ایک ہم ہیں جو عکس چھوڑ کر شیشے کے ٹکڑوں کے پیچھے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت ڈھونڈتے ہیں جو کہیں ہے ہی نہیں۔ حیقیقت کوئی نہیں اور اگر ہے بھی تو اسکے اتنے رنگ ہیں جتنے اللہ پاک کے بندے ہیں۔ ہم دو جمع دو چار کرتے ہیں اور بڑے خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے سچ ڈھونڈ لیا پر دو تیری آنکھیں اور دو میری آنکھیں مل کر چار تو نہیں ہوتی نہ۔ انہیں جتنا بھی جمع کر لو پر سچ یہی ہے کہ دو آنکھیں تیری رہیں گی اور دو میری۔ تیری دو آنکھیں کبھی اس محبت سے میرے بیل کو دیکھ سکیں گی جس سے میری آنکھیں دیکھتی ہیں؟
جانور کے سامنےاسکا بچہ مر جاتا ہے پر وہ روتا نہیں، جانور کے سامنے اسکا پورا جنگل جلا دو پر اسے سمجھ نہیں آتی کہ اسکا کیا چھن گیا ہے۔ یہ ہماری نظر ہے جس سے ہم چیزوں کوسمجھتے ہیں۔ اللہ پاک کی حکمت کو سمجھتے ہیں۔ اس سے باتیں کرتے ہیں۔ جب جب ہم روتے ہیں تو سمجھو کہ وہ ہم سے بات کر رہا ہے۔ ہم ہنستے ہیں تو وہ ہمارے ساتھ ہے۔
شیشے کے ٹکڑے سے دیکھو گے تو آر پار نظر آئے گا اور عدسے سے دیکھو گے تو عکس نظر آئے گا۔ دنیا اصل نہیں ہے دنیا عکس ہے۔"
میں نے خالہ کو اتنا خاموش کبھی نہیں دیکھتا تھا۔ اس دن مجھے لگا جیسے کیا پتہ مائی نے واقعی اللہ کو دیکھا ہو۔ ایک دن دوپہر کو جب مائی سستانے کو تھوڑی دیر کو زمین پر لیٹ گئی تو میں نے آہستگی سے پوچھا۔
"مائی کیا تو نے واقعی اللہ کو دیکھا ہے؟"
"تجھے یقین کیوں نہیں آتا۔ اللہ کوئی بڑا بادشاہ تو ہے نہیں جو کسی دور دراز آسمانوں پہ رہتا ہے۔ اللہ تو ہر شئے میں ہے۔ اب جو ہر شئے میں ہے اسے دیکھ لینے پر ہم سب اتنے حیران کیوں ہوتے ہیں؟ ہاں اگر کوئی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا تو ہمیں اس غریب پر افسوس کرنا چاہیے۔ ہر شئے کے دو روپ ہیں۔ ایک ظاہر اور ایک باطن کا۔ ظاہر کا روپ دنیا ہے اور باطن کا روپ اللہ ہے۔ جب کوئی نظر باطن کا روپ دیکھ لیتی ہے تو پھر واپسی کا کوئی راستہ نہیں رہتا۔"
"مائی اللہ کیسا ہے؟"
مائی ہنس پڑی۔ "یہ بات بس میں جانوں یا میرا اللہ جانے"۔
مائی نے تو جیسے مسکرا کر سوال ٹال دیا پر میں چھوڑنے والی نہیں تھی۔ محلے کی ہر بوڑھی عورت سے میرا ایک ہی سوال ہوتا کہ مائی جھنڈی نے اللہ کو کہاں دیکھا۔ کسی کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ پھر ایک دن میں ایک بوڑھی عورت اپنے بیٹے کے ساتھ تانگے میں بیٹھ کر مائی جھنڈی کے پاس آئی اور دونوں وہیں زمین پر بیٹھ کر گھنٹوں باتیں کرتی رہیں۔ میں ایک پلیٹ میں کچھ لے کر آئی تو مائی جھنڈی نے بتایا کہ وہ اسکی بچپن کی سہیلی ہے۔ تب کی جب وہ لوگ میری عمر کے ہوتے تھے۔ مجھے لگا کہ جیسے اب وہ موقع آ گیا ہے۔ میں نے نانی سے کہ کر ہمارے چوبارے پر انکا اور انکے بیٹے کا بستر لگوا دیا۔ وہ لوگ کافی دور سے آئے تھے اور مائی جھنڈی کے چھوٹے گھر میں ان کے سونے کا انتظام تو ہو نہیں سکتا ہے۔
رات وہ بستر پر لیٹیں توانکا بیٹا تو لیٹتے ہی سو گیا مگر میں ان کے پاس بیٹھ گئی اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی اور پھر پوچھا کہ کیا مائی جھنڈی ہمیشہ سے ایسی ہی تھیں یا پھر اس وقت بدلیں جب انہوں نے اللہ کو دیکھا۔ وہ مسکرائیں
"مجھے نہیں پتہ کہ اسنے اللہ کو دیکھا یا نہیں۔ پر وہ ایسی نہیں تھی۔ دلی میں تو ہم دونوں تو شیطان کے چرخے تھے۔ پورا محلہ ہماری شرارتوں سے تنگ تھا۔ پھر پاکستان آنے کی ڈھنڈیا پڑی تو ہماری جیسے دنیا ہی بدل گئی۔ ہم دونوں ایک ہی ٹرین پر پاکستان کو چلے پر مختلف ڈبے تھے۔ راستے میں کہیں ٹرین آہستہ ہوئی تو بہت سے بلوائی پچھلے ڈبوں پر چڑھ آئے اور لوگوں دل دہلانے والی چیخیں ہمارے ڈبے تک آتی تھیں۔ میں نے لوگوں کے چہروں پر اتنا خوف کبھی نہیں دیکھا۔ مائیں دونوں ہاتھوں سے بچوں کے کان بند کرتی تھیں کہ وہ ڈر نہ جائیں مگر میرے کان ان چیخوں کے بیچ اپنی سہیلی کی آواز کھوجتے تھے۔ چیخیں قریب آتی گئیں اور پھر شور مچا کی اسٹیشن کی روشنیاں نظر آ گئیں۔ اسٹیشن پر شائید فوج کے بندے تھے تھی بلوائی اس سے پہلے ہی بھاگ گئے۔ فوجیوں نے آدھی ٹرین کٹی دیکھی تو انہوں نے اسے روکے بنا اسی طرح آگے بھیج دیا۔
پاکستان میں اسٹیشن پر اترے تو عجیب منظر تھا۔ ڈبوں کے دروازوں سے خون رستا تھا۔ میں بھاگی بھاگی اسکے ڈبے تک پہنچے تولاشیں دروازے تک آ گئی تھیں اور میں وہیں کھڑی رہ گئی۔ میرے اردگرد بچے کچھے لوگ اپنے بچے، بوڑھے اور سامان لئے کیمپ کی طرف جاتے تھے اور ایسے میں میں نے اسے دیکھا جو ایک نوجوان لڑکی کی لاش اپنے ہاتھوں پر اٹھائے ڈبے سے اتر رہی تھی۔ اسکا پورا جسم خون میں ڈوبا تھا پر پھر بھی وہ بڑے سکون سے چل رہی تھی۔ میری سہیلی جب پاکستان کی سرزمین پر اتری تو اسکا اثاثہ بس ایک لاش تھی۔ اسے بہت سے لوگوں نے سمجھایا کہ لاش چھوڑ دو۔ کسی نرس نے اسکے جسم سے رستے خون پر مرہم لگانے کی کوشش بھی کی مگر اسنے سب کے ہاتھ جھٹک دیے۔ کیمپ کے باہر جب لاش کو دفنایا گیا تو وہ تین دن تک اس قبر کے سرہانے بیٹھی رہی اور پھر چپ چاپ خیمے میں آ گئی۔ پر وہ خیموں میں کسی مہاجر کی طرح نہیں بیٹھ بلکہ پہلے ہی دن سے کام کرنے لگی، خدمت کرنے لگی۔ ہر وہ کام جو کوئی دوسرا نہ کرتا میری دوست کرتی۔
ایک دن ہم دونوں سونے کو لیٹے تواسنے کھوئے کھوئے لہجے میں مجھے بتایا
" پتہ ہے میں نے اللہ کو دیکھا۔ اسنے مجھے دیکھا اور وہ ہنس پڑا"
مجھے لگا جیسے وہ سٹھیا گئی ہے پر وہ بولتی رہی
"انسان بڑی کملی مخلوق ہے۔ ہاتھ سے تلوار نیزے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمارے ڈبے میں جب شور اٹھا اور مرد دروازے کی طرف بڑھے تو وہاں کوئی نہیں تھا بس ہوا میں تیرتی ہوئی تلواریں تھیں، بھالے تھے۔ کوئی ہوتا تو وہ اسے روکتے بھی اب بھلا کوئی خالی ہاتھ تلوار کو کیسے روکے۔ لوگ کٹ کٹ کر گرتے تھے۔ کونوں میں سمٹتے رہے۔ پر سیدھی سی ٹرین میں بھلا کونے ہی کتنے تھے؟ مجھے بھی برچھی لگی۔ میں گری اور میرے اوپر ایک دوسری لڑکی گر گئی کچھ ایسے کہ اسکی بڑی بڑی آنکھیں مجھے دیکھتی تھیں۔ آنکھیں جن میں تکلیف تھی۔ خوف تھا۔ آنکھیں جو سہمی ہوئی بلی کے بچے کی طرح اپنے ہی جسم میں سمٹ جانا چاہتی تھیں۔ چیخیں اب کم ہوتی جا رہی تھیں۔ تلواریں اب لاشوں کے بیچ سانس لیتے جسم ڈھونڈتے تھے۔ جہاں زندگی کی ہلکی سی رمق بھی دکھائی دیتی تو سینے میں چاقو کا پورا پھل گھسیٹر دیتے۔ ایسے میں کسی نے اس لڑکی کے جسم میں ایک برچھی ماری۔ میں نے اسکی آنکھوں میں اتنی اذیت دیکھی کہ جس کے سامنے پوری دنیا کی تکلیفیں چھوٹی پڑ جائیں۔ اذیت جس کے بعد آپ کا اپنے جسم پر، سانس لینے پر، زندہ رہنے پر کوئی دعوی نہیں رہتا۔ دعوی رہتا ہے تو بس ایک چیخ پر جو اتنی اذیت کے بعد تو آپ کا حق بن جاتا ہے۔ حق جسے ظالم سے ظالم قاتل بھی دینے سے انکار نہیں کر سکتا۔ وہ آنکھیں اتنی پھیل گئی کہ انکے کونے سے خون کی لکیر نکلنے لگی لیکن وہ چیخی نہیں۔ شائید جانتی تھی کہ اگر چیخی تو سب متوجہ ہو جائیں گے۔ وہ اب اپنے آپ کو تو نہیں بچا سکتی تھی پر اگر وہ اپنا آخری حق چھوڑ دیتی تو شائید قاتل مجھے بھول جاتے۔
وہ چپ رہی اور اسنے ایسا دم سادھا کہ کہ مجھے خوف آنے لگ۔ اور پھر میں نے اس کی پھیلتی ہوئی پتلیوں کے بیچ اللہ پاک کو دیکھا جو اس لڑکی کو لینے خود آیا تھا۔ اسنے بڑی محبت سے لڑکی کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور ایک لمحے میں میری نظر اس سے ملی۔ میں نے اسے دیکھا۔ اسنے مجھے دیکھا اور پھر وہ ہنس پڑا۔ وہ ہنس پڑا کہ اسنے میری سوچ پڑھ لی تھی۔ کہ بھلا میں اتنی اہم کب سے ہو گئی کہ مجھ پر مہربانی کرنے والی لڑکی کو لینے خود اللہ آیا تھا۔ وہ ہنس پڑا جیسے کہتا ہو کہ میں تو ہمیشہ سے تیرے پاس ہی تھا پر تو نے کبھی مجھے دیکھا ہی نہیں۔"
ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ بولتی رہیں۔
"میری سہیلی کہتی تھی کہ۔ ہر شئے کے دو روپ ہیں۔ ایک ظاہر اور ایک باطن کا۔ ظاہر کا روپ دنیا ہے اور باطن کا روپ اللہ ہے۔ جب کوئی نظر باطن کا روپ دیکھ لیتی ہے تو پھر واپسی کا کوئی راستہ نہیں رہتا۔ اسنے بھی باطن کا روپ دیکھ لیا اور پھر اسنے کبھی نظر نہ جھپکی"۔
اگلے دن بوڑھی اماں چلی گئیں۔ مائی جھنڈی کی زندگی ویسے ہی چلتی رہی۔ وہ بیلوں سے باتیں کرتی، کہتی کہ اسنے اللہ کو دیکھا ہے، لوگوں کی اوٹ پٹانگ باتوں پر جھنجھلاتی نہیں۔ وہ ویسی ہی رہی پر میں بدل گئی۔ اب میں ہر شام بڑے التزام سے اپنے حصے میں سے بچا کر اسکے لئے پلیٹ بھر کر کچھ کھانے کو لاتی اور بڑی دیر اسکے پاس بیٹھ کر اللہ کی باتیں سنتی۔
میں نے پڑھنے کو شہر چھوڑا تو جیسے سب کچھ چھوٹ گیا اور پھر بہت سالوں کے بعد لوٹی تو بہت کچھ بدل گیا تھا۔ جھنگ بازار میں برگد کا پیڑ کٹ گیا تھا۔ اسکے نیچے کوئی کولہو نہیں چلتا تھا۔ ایک دکان تھی جس میں ایک مشین لگی تھی جس میں مائی جھنڈی کا بیٹا منہ پر رومال رکھے کام کر رہا تھا۔ مائی جھنڈی جا چکی تھی۔ دل میں آیا کہ پوچھوں بھلا مائی جھنڈی گئی تو بیلوں نے تیز چلنا چھوڑ دیا تھا اسلئے مشین لگا لی یا کوئی اور بات ہے؟ پر پھر یہ سوچ کر رک گئی کہ بھلا اس غریب کو کیا پتہ کہ مائی جھنڈی کون تھی؟ اتنی بڑی دنیا ہے اور میں نے مائی جھنڈی کے سوا کوئی نہ دیکھا جو ٹھوک بجا کر کہتا ہو کہ اسنے اللہ کو دیکھا ہے
No comments:
Post a Comment
THANK YOU