میاں محمد بخش فرماتے ہیں کہ جس مویشی کو گاھک کھنڈے پر مل جائے اس کو منڈی میں لے کر بیچنے کی ضرورت نہیں پڑتی ، اور جو کلے سے کھُل کر بکنے کے لئے منڈی پہنچ جائے ، یقین جانو اس میں کوئی لازمی عیب ھے ، اگرچہ دلال اس میں سو خوبیاں بیان کریں ـ بھائی نام کے بھی ھوں تو انسان کا وقار ہوتے ہیں ، بھائیوں کے بغیر ھر ھر رشتے کے تین تین جوڑے ھوں تب بھی انسان کی پشت خالی رہتی ہے ـ
کہتے ہیں کہ ایک دن گاؤں کے کنوئیں پہ عجیب ماجرا ھوا کہ جو ڈول بھی کنوئیں میں ڈالا جاتا واپس نہ آتا جبکہ رسی واپس آ جا تی ، سارے لوگ خوفزدہ ھو گئے کہ اندر ضرور کوئی جن جنات ھے جو یہ حرکت کرتا ھے ، آخر اعلان کیا گیا کہ جو بندہ اس راز کا پتہ لگائے گا اس کو انعام دیا جائے گا ،، ایک آدمی نے کہا کہ اس کو انعام کی کوئی ضرورت نہیں مگر وہ گاؤں والوں کی مصیبت کے ازالے کے لئے یہ قربانی دینے کو تیار ھے مگر ایک شرط پر ،، شرط یہ ہے کہ میں کنوئیں میں اسی صورت اتروں گا جب رسا پکڑنے والوں میں میرا بھائی بھی شامل ھو ،،
اس کے بھائی کو بلایا گیا اور رسہ پکڑنے والوں نے رسا پکڑا اور ایک ڈول میں بٹھا کر اس بندے کو کنوئیں میں اتار دیا گیا ، اس بندے نے دیکھا کہ کنوئیں میں ایک مچھندر قسم کا بندر بیٹھا ھوا ھے جو ڈول سے فورا رسی کھول دیتا ہے ،، اس بندے نے اپنی جیب کو چیک کیا تو اسے گڑ مل گیا ،، اس نے وہ گڑ اس بندر کو دیا یوں بندر اس سے مانوس ھو گیا ، بندے نے اس بندر کو کندھے پر بٹھایا اور نیچے سے زور زور سے رسہ ہلایا ،، گاؤں والوں نے رسا کھینچنا شروع کیا اور جونہی ڈول اندھیرے سے روشنی میں آیا وہ لوگ بندر کو دیکھ کر دھشت زدہ ھو گئے کہ یہ کوئی عفریت ہے جس نے اس بندے کو کھا لیا ھے اور اب اوپر بھی چڑھ آیا ھے ، وہ سب رسہ چھوڑ کر سرپٹ بھاگے مگر اس بندے کا بھائی رسے کو مضبوطی سے تھامے اوپر کھینچنے کی کوشش کرتا رھا تا آنکہ وہ کنارے تک پہنچ گیا ، کنوئیں سے نکل کر اس نے بندر کو نیچے اتارا اور لوگوں کو اس بندر کی کارستانی بتائی پھر کہا کہ میں نے اسی لئے اپنے بھائی کی شرط رکھی تھی کہ اگر میرے ساتھ کنوئیں میں کوئی ان ھونی ھو گئ تو تم سب بھاگ نکلو گے جبکہ بھائی کو خون کی محبت روکے رکھے گی ، یاد رکھیں کوئی لاکھ اچھائی کرے مگر خونی رشتے آخرکار خون کے رشتے ہی ہوتے ہیں ، ان کی قدر کریں ،،
No comments:
Post a Comment
THANK YOU