1۔ کوکین سے علاج
جی آپ نے بلکل ٹھیک سنا۔
صرف 100 سال پہلے تک کوکین کو بطور دوا استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ میڈیکل سٹورز پر عام دسیتاب تھی اور اس کے لیے باقاعدہ اشتہار چلائے جاتے تھے۔
بچوں کو " آرام " دینے کے لیے اسکا استعمال خاص طور پر کیا جاتا تھا۔
1903ء تک اس کو کوکا کولا میں باقاعدگی سے استعمال
کیا جاتا تھا۔ کوکاکولا کی ایک بوتل میں 9 گرام کوکین ملائی جاتی تھی۔ جو اس میں پہلے سے موجود کیفین کے ساتھ ملکر کر انسان کو بلکل بے حس کر دیتی تھی۔ دنیا کی پہلی انرجی ڈرنک کہہ لیں۔
کوکین کا پہلا شکار بھی ایک ڈاکٹر ہی ہوا تھا۔
2۔ بچوں کو بذریعہ ڈاک بھیجنا۔
یہ بلکل مذاق نہیں ہے۔ 20 ویں صدی کے آغاز میں امریکہ کی ڈاک آپ کو یہ سہولت دیتی تھی کہ آپ اپنا بچہ 15 سنٹ کے عوض کہیں بھی بھیج سکتے ہیں۔ بچوں کے لیے مخصوص تھیلا یا لفافہ استعمال ہوتا تھا جس پر باقاعدہ مہر لگتی تھی۔
3۔ بچوں کے پنجرے۔
لندن کے ایک ڈاکٹر لوتھر صاحب نے کسی کتاب میں لکھ دیا کہ تازہ ہوا بچوں کے خون میں سے زہر ختم کر دیتی ہے جس کے بعد لندن بھر میں بچوں کو پنجروں میں بند کر کے دیوار یا کھڑکی سے باہر لٹکانے کا رواج ہوا۔ ماں اس دوران بے فکر ہو کر گھر کے کام کاج کرتی رہتی۔
4۔ زندہ ڈیکوریشن پیس رکھنا
یورپ ولندن کے امیر گھرانوں میں زندہ ڈیکوریشن پیس رکھنے کا رواج تھا جو درحقیقت ایک جیتا جاگتا انسان ہوتا تھا جس کو گارڈن ہرمٹ کہتے تھے۔ اس کو قصہ کہانیوں جیسے بل نما کمرے میں رکھتے تھے اور اسکو بال اور ناخن کاٹنے کیا اجازت بھی نہیں ہوتی تھی۔ لباس بھی وہی ہوتا تھا۔
ایسے لوگوں کے گھر جب بھی مہمان آتے تو انکو وہ اپنا " ہرمٹ " ضرور دکھاتے تھے۔
5۔ علاج معالجے کے عجیب و غریب طریقے
انفیکشن سے تو خیر ناواقف تھے ہی لیکن اور بھی کئی خطرناک علاج کے طریقے رائج تھے۔ زبان کاٹنا، کرنٹ مارنا اور سر کی ہڈی کھول کر دماغ سے چھیڑ چھاڑ جس میں بہت سے لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔
جونک کے ذریعے خون چوسنا انیسویں صدی کا ایک مشہور طریقہ علاج تھا۔ متاثرہ حصے پر جونک چپکائی جاتی تاکہ گندہ خون پی لے۔ یہ علاج اتنا مقبول تھا کہ لوگوں نے باقاعدہ جونکیں پالنی شروع کر دی تھیں جو ڈاکٹروں کو سپلائی کی جاتی تھیں۔
6۔ بچوں کے ریڈیو ایکٹیو کھلونے
جی ہاں! ایٹمی کھلونے۔ جن میں یورینیم یا پلوٹونیم کی معمولی مقدار استعمال ہوتی تھی۔ یہ انتاہئی مہنگے ہوتے تھے۔
لڑکیاں چمکدار پینٹ استعمال کرتی تھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ عرصے بعد یہ کھلونے استعمال کرنے والے لوگ کینسر اور ہڈیوں کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر مرنے لگے۔
اور تو اور اس کو بطور دوا بھی استعمال کیا گیا۔ اور یہی دوا استعمال کرنے کے نتیجے میں اس وقت کا گالف چیمپئن اون بائرز انتقال کر گیا۔ موصوف کا جبڑا جھڑ گیا تھا اور کھوپری میں سوراخ ہوگئے تھے۔
اگر اس پر آپکی تسلی نہیں ہوئی تو آپ کو بتاتے چلیں کہ ریڈیو ایکٹیو صابن اور ٹوتھ پیسٹ بھی دستیاب تھے۔ غالباً خودکشی کرنے کے لیے ۔۔۔ :)
7۔ انسانی چڑیا گھر۔
اسکا مقصد افریقہ اور ایشیاء سے لائے گئے انسانوں کی نمائش تھی تاکہ ڈارون کی تھیوری درست ثابت کی جا سکے۔ یہ چڑیا گھر لندن، برلن اور پیرس میں عام تھے۔ جہاں انسانوں کو ان کے مخصوص " قدرتی " ماحول میں رکھنے کا اتنظام بھی ہوتا تھا۔
8۔ پاگلوں کے ذریعے پیسے کمانا
یورپ میں پاگلوں اور نفسیاتی مریضوں سے ملاقات کی باقاعدہ فیس وصول کی جاتی تھی۔ یہ فیس لے کر کوئی بھی ان سے مل سکتا تھا اور انکو ایک چھڑی کی مدد سے چھو کر انکا ری ایکشن بھی دیکھ سکتا تھا۔
9۔ انسانی اعضاء جمع کرنا
یہ شغل دوسری جنگ عظیم تک جاری رہا۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکن فوجی جاپانیوں کے سر کاٹ کر لے جاتے تھے جہاں وہ انہیں ٹرافی کی طرح اپنے گھروں میں سجاتے تھے۔
10۔ دوران حمل سگریٹ نوشی کی تاکید
سیگریٹ نوشی خطرناک ہے لیکن دوران حمل بہت ہی خطرناک۔
لیکن 1930 میں امریکن ڈاکٹرز ان خواتین کے باقاعدہ سگریٹ نوشی کی ترغیب دیتے تھے جن کو حمل ہوا ہوتا تھا۔ ہے نا دلچسپ بات ؟
سوچیں اگر یہی سب کچھ آج ہو رہا ہوتا تو ؟؟۔
No comments:
Post a Comment
THANK YOU