پہلی محبت
یہ اکثر پہلی نظر میں ہوتی ہے اور کسی شادی میں خواتین والی سائڈ پر کھانا سرو کرتے ہوئے ہوتی ہے۔دونوں فریقین کی آنکھیں چار ہوتی ہیں‘ لڑکا سلوموشن میں چاولوں کی پلیٹ لڑکی کی طرف بڑھاتاہے اور اُس کی جھیل جیسی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے آہستہ سے کہتا ہے’’سیون اپ یا پیپسی؟‘‘۔۔۔ لڑکی مسکرا کر جواب دیتی ہے اور لڑکے کو پہلی محبت ہوجاتی ہے۔عموماً پہلی محبت پندرہ سے بیس سال تک کی عمر میں ہوجانی چاہیے ورنہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اِس کے بعد ہونے والی محبت کے انتہائی بھیانک نتائج نکلتے ہیں یعنی شادی ہوجاتی ہے۔پہلی محبت انتہائی شدید ہوتی ہے‘ دل چاہتا ہے جس کو ہم چاہتے ہیں اس کی طرف کوئی نظر اٹھا کے نہ دیکھے‘ کئی لڑکے اس موقع پر لڑکی کو ہر روز قیامت کا منظر یاد کراتے ہیں’’شکیلہ! یہ جو نعیم ہے یہ بہانے بہانے سے لڑکیاں گھیرتاہے اور پھر انہیں درہ آدم خیل بیچ آتاہے‘‘۔
پہلی محبت ہر اُس لڑکی سے ہوجاتی ہے جو پہلی دفعہ لفٹ کراتی ہے‘ اس مقصد کے لیے اکثر خود سے محنت کرنا پڑتی ہے یعنی بار بار لڑکی
کے آگے سے گذرنا پڑتاہے‘ اس کے سامنے فقیر کو اوقات سے بڑھ کر خیرات دینا پڑتی ہے ‘بار بار موبائل فون پر لندن امریکہ کال کرنا پڑتی ہے اور کبھی کبھی تودن میں دو دفعہ شیو کرنا پڑتی ہے۔پہلی محبت دل سے کی جاتی ہے لہذا اس میں دماغ کہیں بھی استعمال نہیں ہوتاتاہم دوسری محبت انسان ہمیشہ دماغ سے کرتاہے ۔ پہلی محبت زندگی میں بڑی خوشگوار تبدیلی لاتی ہے‘ بندہ بیٹھے بٹھائے شاعر بن جاتاہے‘ ڈائری لکھنے کو جی چاہتاہے‘ احمد فراز کی غزلیں یاد ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور گھر والے زہر لگنے لگتے ہیں۔کئی لڑکے ہر محبت پہلی محبت سمجھ کر کرتے ہیں اور آخری سمجھ کر دوڑ جاتے ہیں۔لڑکیوں میں چونکہ حوصلہ ذرا زیادہ ہوتاہے لہذ ا وہ پہلی محبت میں خود گرفتار ہونے کی بجائے لڑکے کو تگنی کا ناچ نچوانے میں زیادہ لطف محسوس کرتی ہیں۔پہلی محبت کا اظہار بڑا دلچسپ ہوتاہے‘پرانے وقتوں میں اس مقصد کے لیے لڑکی کو رقعہ لکھا جاتاتھا اور رقعے پر ’’پوائزن‘‘ پرفیوم کا سپرے بھی کر دیا جاتا تھا تاہم اس کے نتائج بڑے خطرناک نکلتے تھے‘ کئی لڑکیاں رقعہ کھولتے ہی ’’سوائن فلو‘‘ میں مبتلا ہوجاتی تھیں۔ آج کل چونکہ دور جدید ہوچکا ہے اس لیے اظہار محبت کا بہترین ذریعہ موبائل فون اور فیس بک ہے۔لڑکوں کی اکثریت گوگل امیج سے محبت بھرا کوئی میسج کاپی کرتی ہے اور پھر فیس بک پر نظر آنے والی ہر لڑکی کے Inboxمیں Paste کردیتی ہے۔ جواب آگیا تو ٹھیک ورنہ لگے رہو منا بھائی۔زندگی میں پہلی محبت بڑی عجیب ہوتی ہے‘ محبوب سے اچھا کوئی نہیں لگتا‘ محبوب کی بکواس بھی شیکسپیئرکا ڈائیلاگ لگتی ہے‘ محبوب اگر اتنا ہی کہہ دے کہ ’’زندگی محبت کے بغیر ادھوری ہے‘‘ تو دل میں حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں کہ ماشاء اللہ ہمارا محبوب کتنی گہری باتیں کرتاہے۔یہ وہ موقع ہوتا ہے جب محبوب کسی بات پر تھوڑا سا مسکرا اٹھے تو فوراً یاروں دوستو ں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ ’’آج وہ بڑا ہنسی‘‘۔پہلی محبت میں شاعری بڑی ضروری ہوتی ہے لہذا جن لوگوں کو پہلی محبت کا شرف حاصل ہوچکا ہے وہ گواہی دیں گے کہ ایسے موقعوں پر کیسا کیسا احمقانہ شعر لکھا جاتاہے۔لڑکی کو اگر کوئی شعر پسند آجائے تو لڑکے کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے یہی بتائے کہ یہ شعر اس نے خود’’بنایا‘‘ ہے۔میرے ایک دوست نے تو انتہا کردی’’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں‘‘ والی پوری غزل محبوبہ کو یہ کہہ کر پیش کر دی کہ ’’رات تمہارے خیال میں بیٹھا تھا کہ آمد ہوگئی‘‘۔وہ بھی ایسی اللہ میاں کی گائے تھی کہ کہنے لگی’’شکیل! غزل بہت اچھی ہے لیکن کہیں کہیں سے بے وزن لگتی ہے‘‘۔ہمارے ہاں ہر شخص پہلی محبت کے تجربے سے گذرتاہے اور پھر کندن ہوجاتاہے‘ اس کے بعد اسے دوسری تیسری یا چوتھی محبت کرنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہوتی ‘ سارے طریقے یاد ہوجاتے ہیں اور پرانا میٹریل ہی چل جاتاہے۔کہتے ہیں پہلی محبت کبھی نہیں بھلائی جاسکتی ‘ظاہری بات ہے وہ محترمہ جس سے شادی نہ ہوئی ہو اسے کون کمبخت بھول سکتاہے۔وہ تو بار با ر یاد آتی ہے اورایسا لگتاہے کہ آج اگر وہ ہوتی تو زندگی میں ہر طرف بہار ہوتی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مرد کو ہر وہ عورت بری لگتی ہے جو اسے حاصل ہوجائے۔پہلی محبت کا خمار عموماً اُس وقت تک رہتا ہے جب تک کوئی اور لفٹ نہیں کراتی۔۔۔اور تب اچانک احساس ہوتاہے کہ اصل میں پہلی محبت یہی ہے۔شادی شدہ مرد کو عمر کے چالیسویں سال اپنی پہلی محبت بہت یاد آتی ہے یوں پہلی محبت کا ’’چالیسواں‘‘ منایا جاتاہے۔پہلی محبت کرنے والوں کو بڑی خواہش ہوتی ہے کہ کاش زندگی کے کسی موڑ پروہ اُس عفیفہ کو دیکھ سکیں جس سے انہیں دل کی گہرائیو ں سے عشق ہوا تھا۔ کئی دفعہ ایسا ممکن بھی ہوجاتاہے لیکن اس سے زیادہ اذیت ناک لمحہ کوئی نہیں ہوتا۔ میرے ایک دوست کو 25 سال بعد پتا چلا کہ اس کی پہلی محبت سکول میں پرنسپل لگی ہے اور سکول بھی وہ جس میں ان کا بچہ پڑھتاہے۔ سوئے ہوئے جذبات ایک دم جاگ اٹھے اور مچل گئے کہ ایک دفعہ تو ضرور ملیں گے۔ پرنسپل صاحبہ کو فون کیا‘ اپنا نام بتایا۔۔۔تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر دوسری طرف سے کسی کے سسکیاں لینے کی آواز آئی‘ یہ بھی آبدیدہ ہوگئے اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔اچانک بیگم کی آواز آئی’’وے بچے نوں سکولوں لے آ‘‘۔ فوراً خود پر کنٹرول کیا‘ آنسو پونچھے اور اپنے تئیں عمدہ لباس زیب تن کرکے بچے کے سکول پہنچ گئے۔سٹاف کو مطلع کیا کہ وہ نئی پرنسپل صاحبہ سے ملنا چاہتے ہیں۔کچھ دیر انتظار کی زحمت اٹھانا پڑی‘ پھر بلاوہ آگیا۔ دھڑکتے دل کے ساتھ پرنسپل آفس میں قدم رکھا‘ دھیرے سے نظر اٹھائی اوربوکھلا گئے‘ سامنے ایک موٹی سی بڑی عمر کی خاتون نظر کی عینک لگائے انہیں گھور رہی تھیں۔جو حالت موصوف کی ہورہی تھی وہی خاتون کی بھی تھی۔ دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے کو دیکھتے رہے‘ پھرسلسلہ وہیں سے شروع ہوا جہاں سے ٹوٹا تھا۔۔۔یعنی رونا شروع ہوگئے۔رو رو کر تھک گئے توبغیر کچھ کہے اٹھے‘ باہر نکلے‘ بچے کو ساتھ لیا اور گھر آگئے۔سنا ہے بعد میں پرنسپل صاحبہ سے ان کی دو تین ملاقاتیں ہوئیں لیکن موضوع بحث محبت کی بجائے کچھ اور چیزیں رہیں مثلاً تبخیر معدہ‘ گیس‘ جلن‘ جوڑوں کا درد‘ دماغ کی خشکی وغیرہ۔۔۔ایک ہفتے بعد انہوں نے عشاق کو فتویٰ جاری کر دیا کہ زندگی میں کبھی اپنی پہلی محبت سے مت ملنا ورنہ پتھر کے ہوجاؤ گے۔۔۔!!!
کے آگے سے گذرنا پڑتاہے‘ اس کے سامنے فقیر کو اوقات سے بڑھ کر خیرات دینا پڑتی ہے ‘بار بار موبائل فون پر لندن امریکہ کال کرنا پڑتی ہے اور کبھی کبھی تودن میں دو دفعہ شیو کرنا پڑتی ہے۔پہلی محبت دل سے کی جاتی ہے لہذا اس میں دماغ کہیں بھی استعمال نہیں ہوتاتاہم دوسری محبت انسان ہمیشہ دماغ سے کرتاہے ۔ پہلی محبت زندگی میں بڑی خوشگوار تبدیلی لاتی ہے‘ بندہ بیٹھے بٹھائے شاعر بن جاتاہے‘ ڈائری لکھنے کو جی چاہتاہے‘ احمد فراز کی غزلیں یاد ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور گھر والے زہر لگنے لگتے ہیں۔کئی لڑکے ہر محبت پہلی محبت سمجھ کر کرتے ہیں اور آخری سمجھ کر دوڑ جاتے ہیں۔لڑکیوں میں چونکہ حوصلہ ذرا زیادہ ہوتاہے لہذ ا وہ پہلی محبت میں خود گرفتار ہونے کی بجائے لڑکے کو تگنی کا ناچ نچوانے میں زیادہ لطف محسوس کرتی ہیں۔پہلی محبت کا اظہار بڑا دلچسپ ہوتاہے‘پرانے وقتوں میں اس مقصد کے لیے لڑکی کو رقعہ لکھا جاتاتھا اور رقعے پر ’’پوائزن‘‘ پرفیوم کا سپرے بھی کر دیا جاتا تھا تاہم اس کے نتائج بڑے خطرناک نکلتے تھے‘ کئی لڑکیاں رقعہ کھولتے ہی ’’سوائن فلو‘‘ میں مبتلا ہوجاتی تھیں۔ آج کل چونکہ دور جدید ہوچکا ہے اس لیے اظہار محبت کا بہترین ذریعہ موبائل فون اور فیس بک ہے۔لڑکوں کی اکثریت گوگل امیج سے محبت بھرا کوئی میسج کاپی کرتی ہے اور پھر فیس بک پر نظر آنے والی ہر لڑکی کے Inboxمیں Paste کردیتی ہے۔ جواب آگیا تو ٹھیک ورنہ لگے رہو منا بھائی۔زندگی میں پہلی محبت بڑی عجیب ہوتی ہے‘ محبوب سے اچھا کوئی نہیں لگتا‘ محبوب کی بکواس بھی شیکسپیئرکا ڈائیلاگ لگتی ہے‘ محبوب اگر اتنا ہی کہہ دے کہ ’’زندگی محبت کے بغیر ادھوری ہے‘‘ تو دل میں حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں کہ ماشاء اللہ ہمارا محبوب کتنی گہری باتیں کرتاہے۔یہ وہ موقع ہوتا ہے جب محبوب کسی بات پر تھوڑا سا مسکرا اٹھے تو فوراً یاروں دوستو ں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ ’’آج وہ بڑا ہنسی‘‘۔پہلی محبت میں شاعری بڑی ضروری ہوتی ہے لہذا جن لوگوں کو پہلی محبت کا شرف حاصل ہوچکا ہے وہ گواہی دیں گے کہ ایسے موقعوں پر کیسا کیسا احمقانہ شعر لکھا جاتاہے۔لڑکی کو اگر کوئی شعر پسند آجائے تو لڑکے کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے یہی بتائے کہ یہ شعر اس نے خود’’بنایا‘‘ ہے۔میرے ایک دوست نے تو انتہا کردی’’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں‘‘ والی پوری غزل محبوبہ کو یہ کہہ کر پیش کر دی کہ ’’رات تمہارے خیال میں بیٹھا تھا کہ آمد ہوگئی‘‘۔وہ بھی ایسی اللہ میاں کی گائے تھی کہ کہنے لگی’’شکیل! غزل بہت اچھی ہے لیکن کہیں کہیں سے بے وزن لگتی ہے‘‘۔ہمارے ہاں ہر شخص پہلی محبت کے تجربے سے گذرتاہے اور پھر کندن ہوجاتاہے‘ اس کے بعد اسے دوسری تیسری یا چوتھی محبت کرنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہوتی ‘ سارے طریقے یاد ہوجاتے ہیں اور پرانا میٹریل ہی چل جاتاہے۔کہتے ہیں پہلی محبت کبھی نہیں بھلائی جاسکتی ‘ظاہری بات ہے وہ محترمہ جس سے شادی نہ ہوئی ہو اسے کون کمبخت بھول سکتاہے۔وہ تو بار با ر یاد آتی ہے اورایسا لگتاہے کہ آج اگر وہ ہوتی تو زندگی میں ہر طرف بہار ہوتی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مرد کو ہر وہ عورت بری لگتی ہے جو اسے حاصل ہوجائے۔پہلی محبت کا خمار عموماً اُس وقت تک رہتا ہے جب تک کوئی اور لفٹ نہیں کراتی۔۔۔اور تب اچانک احساس ہوتاہے کہ اصل میں پہلی محبت یہی ہے۔شادی شدہ مرد کو عمر کے چالیسویں سال اپنی پہلی محبت بہت یاد آتی ہے یوں پہلی محبت کا ’’چالیسواں‘‘ منایا جاتاہے۔پہلی محبت کرنے والوں کو بڑی خواہش ہوتی ہے کہ کاش زندگی کے کسی موڑ پروہ اُس عفیفہ کو دیکھ سکیں جس سے انہیں دل کی گہرائیو ں سے عشق ہوا تھا۔ کئی دفعہ ایسا ممکن بھی ہوجاتاہے لیکن اس سے زیادہ اذیت ناک لمحہ کوئی نہیں ہوتا۔ میرے ایک دوست کو 25 سال بعد پتا چلا کہ اس کی پہلی محبت سکول میں پرنسپل لگی ہے اور سکول بھی وہ جس میں ان کا بچہ پڑھتاہے۔ سوئے ہوئے جذبات ایک دم جاگ اٹھے اور مچل گئے کہ ایک دفعہ تو ضرور ملیں گے۔ پرنسپل صاحبہ کو فون کیا‘ اپنا نام بتایا۔۔۔تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر دوسری طرف سے کسی کے سسکیاں لینے کی آواز آئی‘ یہ بھی آبدیدہ ہوگئے اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔اچانک بیگم کی آواز آئی’’وے بچے نوں سکولوں لے آ‘‘۔ فوراً خود پر کنٹرول کیا‘ آنسو پونچھے اور اپنے تئیں عمدہ لباس زیب تن کرکے بچے کے سکول پہنچ گئے۔سٹاف کو مطلع کیا کہ وہ نئی پرنسپل صاحبہ سے ملنا چاہتے ہیں۔کچھ دیر انتظار کی زحمت اٹھانا پڑی‘ پھر بلاوہ آگیا۔ دھڑکتے دل کے ساتھ پرنسپل آفس میں قدم رکھا‘ دھیرے سے نظر اٹھائی اوربوکھلا گئے‘ سامنے ایک موٹی سی بڑی عمر کی خاتون نظر کی عینک لگائے انہیں گھور رہی تھیں۔جو حالت موصوف کی ہورہی تھی وہی خاتون کی بھی تھی۔ دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے کو دیکھتے رہے‘ پھرسلسلہ وہیں سے شروع ہوا جہاں سے ٹوٹا تھا۔۔۔یعنی رونا شروع ہوگئے۔رو رو کر تھک گئے توبغیر کچھ کہے اٹھے‘ باہر نکلے‘ بچے کو ساتھ لیا اور گھر آگئے۔سنا ہے بعد میں پرنسپل صاحبہ سے ان کی دو تین ملاقاتیں ہوئیں لیکن موضوع بحث محبت کی بجائے کچھ اور چیزیں رہیں مثلاً تبخیر معدہ‘ گیس‘ جلن‘ جوڑوں کا درد‘ دماغ کی خشکی وغیرہ۔۔۔ایک ہفتے بعد انہوں نے عشاق کو فتویٰ جاری کر دیا کہ زندگی میں کبھی اپنی پہلی محبت سے مت ملنا ورنہ پتھر کے ہوجاؤ گے۔۔۔!!!
پہلی محبت ہمارے اندر ایک احساس جگاتی ہے‘ یہ بلامقصد ہوتی ہے‘ اس کا انجام عموماً جدائی ہوتاہے لیکن یہ ساری زندگی اپنی میٹھی کسک ہمارے اندر بھر جاتی ہے۔پہلی محبت کا احسان جانئے کہ یہ ہمیں زندگی میں پہلی بار کسی کے لیے سوچنے کا موقع فراہم کرتی ہے‘ یہ ایک سٹارٹر ہوتاہے۔۔۔بالکل ایسے جیسے ہم بچپن میں سائیکل کی قینچی چلانا سیکھتے ہیں ‘ اس کے بعد موٹر سائیکل اور گاڑی دوڑاتے پھرتے ہیں لیکن قینچی چلانا ہمیں کبھی نہیں بھولتا۔۔۔شائد اس لیے کہ ہمیں یاد ہوتاہے کہ قینچی چلاتے وقت ہم کتنے بے قابو ہوجایا کرتے تھے۔۔۔کتنے خوفزدہ ہوجاتے تھے۔۔۔جلدی میں پتا نہیں چلتا تھا کہ اگلی بریک لگانی ہے یا پچھلی۔۔۔خالی گلی میں بھی سائیکل کی گھنٹی بجا بجا کر آسودگی حاصل کیا کرتے تھے۔۔۔یہ ساری یادیں بھی پہلی محبت کی طرح ہوتی ہیں‘ انہیں صرف یاد کیا جاسکتا ہے‘ واپس نہیں لایا جاسکتا.
No comments:
Post a Comment
THANK YOU