ناکے پر کھڑا سپاہی
میں نے ناکے پر کھڑے سپاہی سے سوال کیا ۔ سنا ہے بہت کما لیتے ہو ؟ ایک تلخ مسکراہٹ لمحہ بھر کے لئے اس کے چہرے پر آئی اور پھر دم توڑ گئی ۔ عجیب سی یاسیت اس کے لہجہ میں در آئی ۔ کہنے لگا : صاحب ! میں اپنے باپ کی جگہ بھرتی ہوا ہوں ۔ میرا باپ تم لوگوں کی حفاظت کے لئے ناکے پر کھڑا تھا ۔ تمہارے جیسے کسی صاحب کے دشمن نے اسی ناکے پر رکنے کی بجائے میرے باپ کو گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا ۔ اسے تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اس کے قاتل کون ہیں ۔ وہ پہلی بار ان قاتلوں
سے ملا تھا ۔ یہیں کہیں اسے پہلی گولی لگی اور اس نے بھاگنے کی بجائے ڈاکوئوں کی طرف اپنی پستول کا رخ کر دیا ۔ اس جرم کی سزا یہ ملی کہ اس پر پورا برسٹ فائر ہوا ۔ اخبار میں ایک خبر اور دو تعزیتی بیان چھپے اور پھر میں اسی ناکے پر آ گیا ۔ میرے گھر جانے تک میری ماں اور بیوی یہی سوچتی رہتی ہیں کہ جانے آج بھی زندہ لوٹوں گا یا اپنے باپ کی طرح کسی اجنبی کی گولیوں کا نشانہ بن جائوں گا ۔ میرے بچوں کو خبر نہیں وہ کب یتیم کہلانے لگیں ۔۔ سپاہی دم لینے کو رکا اور پھر عجیب سے انداز میں کہنے لگا : صاحب ! پیسے کمانے ہوتے تو اور بھی کئی راستے تھے ۔ تم ایک دن اسی جگہ ، اسی ناکے پر کھڑے ہو کر ڈیوٹی دے لو ۔ شاید تمہیں خبر نہیں کہ ایک سپاہی دن بھر میں کتنا دھواں اپنے پھیپروں میں اتارتا ہے ۔ شاید تمہیں اس گرمی اور دھوپ کا اندازہ نہیں ہے ۔ تم ٹھنڈی گاڑیوں میں آنے والوں کو تو یہ بھی علم نہیں کہ ہر دو منٹ بعد لوگوں سے بحث کرنے والے کا سر کیسے چکرانے لگتا ہے ۔ تم تو عید کی نماز کے بعد بھی ہم پردیسیوں سے گلے ملنا گوارا نہیں کرتے ۔ ساری باتیں چھوڑو اور ایک کام کرو ۔ ۔ صرف آدھا دن اس احساس کے ساتھ میری جگہ کھڑے ہو جائو کہ کسی بھی لمحے کوئی تمہیں گولی مار دے گا ۔ آدھے دن بعد ایک لاکھ بھی ملے تو نہیں رک پائو گے ۔ صاحب جان سب کو پیاری ہوتی ہے لیکن ہم سپاہیوں کی کہانی الگ ہے ۔ ہم اپنے گھر والوں کو اس لئے تنہا چھوڑ آتے ہیں کہ تمہارے گھر والے محفوظ رہیں ۔ ۔سنو ! کچھ سال بعد اسی ناکے پر آنا ۔ شاید تب تک میں بھی اپنے باپ کی طرح مارا جا چکا ہوں اور میری جگہ میرا بیٹا بھرتی ہو کر تمہیں اسی ناکے پر ملے ۔ یہ کہانی ہر سپاہی کی ہے لیکن چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے تم ہم سب پر انگلیاں اٹھاتے ہو ۔ اجازت ہو تو اتنا بتاتے جانا ، تم میڈیا والوں میں بھی بلیک میلر ہوتے ہیں ۔ کیا میں سبھی کو ایک جیسا کہہ سکتا ہوں ۔ تم سے پوچھ سکتا ہوں کہ کتنے پیسے کما لیتے ہو ۔ بولو صاحب ۔۔۔۔۔
سے ملا تھا ۔ یہیں کہیں اسے پہلی گولی لگی اور اس نے بھاگنے کی بجائے ڈاکوئوں کی طرف اپنی پستول کا رخ کر دیا ۔ اس جرم کی سزا یہ ملی کہ اس پر پورا برسٹ فائر ہوا ۔ اخبار میں ایک خبر اور دو تعزیتی بیان چھپے اور پھر میں اسی ناکے پر آ گیا ۔ میرے گھر جانے تک میری ماں اور بیوی یہی سوچتی رہتی ہیں کہ جانے آج بھی زندہ لوٹوں گا یا اپنے باپ کی طرح کسی اجنبی کی گولیوں کا نشانہ بن جائوں گا ۔ میرے بچوں کو خبر نہیں وہ کب یتیم کہلانے لگیں ۔۔ سپاہی دم لینے کو رکا اور پھر عجیب سے انداز میں کہنے لگا : صاحب ! پیسے کمانے ہوتے تو اور بھی کئی راستے تھے ۔ تم ایک دن اسی جگہ ، اسی ناکے پر کھڑے ہو کر ڈیوٹی دے لو ۔ شاید تمہیں خبر نہیں کہ ایک سپاہی دن بھر میں کتنا دھواں اپنے پھیپروں میں اتارتا ہے ۔ شاید تمہیں اس گرمی اور دھوپ کا اندازہ نہیں ہے ۔ تم ٹھنڈی گاڑیوں میں آنے والوں کو تو یہ بھی علم نہیں کہ ہر دو منٹ بعد لوگوں سے بحث کرنے والے کا سر کیسے چکرانے لگتا ہے ۔ تم تو عید کی نماز کے بعد بھی ہم پردیسیوں سے گلے ملنا گوارا نہیں کرتے ۔ ساری باتیں چھوڑو اور ایک کام کرو ۔ ۔ صرف آدھا دن اس احساس کے ساتھ میری جگہ کھڑے ہو جائو کہ کسی بھی لمحے کوئی تمہیں گولی مار دے گا ۔ آدھے دن بعد ایک لاکھ بھی ملے تو نہیں رک پائو گے ۔ صاحب جان سب کو پیاری ہوتی ہے لیکن ہم سپاہیوں کی کہانی الگ ہے ۔ ہم اپنے گھر والوں کو اس لئے تنہا چھوڑ آتے ہیں کہ تمہارے گھر والے محفوظ رہیں ۔ ۔سنو ! کچھ سال بعد اسی ناکے پر آنا ۔ شاید تب تک میں بھی اپنے باپ کی طرح مارا جا چکا ہوں اور میری جگہ میرا بیٹا بھرتی ہو کر تمہیں اسی ناکے پر ملے ۔ یہ کہانی ہر سپاہی کی ہے لیکن چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے تم ہم سب پر انگلیاں اٹھاتے ہو ۔ اجازت ہو تو اتنا بتاتے جانا ، تم میڈیا والوں میں بھی بلیک میلر ہوتے ہیں ۔ کیا میں سبھی کو ایک جیسا کہہ سکتا ہوں ۔ تم سے پوچھ سکتا ہوں کہ کتنے پیسے کما لیتے ہو ۔ بولو صاحب ۔۔۔۔۔
نوٹ : ناکے پر کھڑا سپاہی بم دھماکے میں شہید ہو گیا
No comments:
Post a Comment
THANK YOU